رسائی کے لنکس

وبا سے 40 لاکھ سے زیادہ لوگ موت کا شکار، ابھی یہ سلسلہ رکا نہیں؟


الے نوائے میں ایک بچی کو ویکسین لگائی جا رہی ہے (فائل فوٹو)
الے نوائے میں ایک بچی کو ویکسین لگائی جا رہی ہے (فائل فوٹو)

کووڈ 19 کی وبا نے دنیا بھر میں انسانوں کو اتنا بے بس کر دیا کہ زندگی بچانے کے سب سامان دھرے رہ گئے۔ اب ڈیڑھ برس سے زیادہ عرصے کے بعد تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں 40 لاکھ سے زیادہ لوگ موت کا شکار ہو چکے ہیں۔

ابھی یہ سلسلہ رکا نہیں۔۔۔کرونا وائرس کے نئے ویرئنٹ سامنے آ رہے ہیں اور خطرات ابھی باقی ہیں۔

مگر موت کے بعد کے اثرات بھی کچھ کم پریشان کن نہیں۔ خاندانوں کے خاندان متاثر ہوئے ہیں۔ اور بعض گھروں میں تو صرف بچے ہی باقی رہ گئے جو یا تو ماں باپ میں سے کسی ایک سے محروم ہوئے ہیں یا ماں باپ دونوں ہی کے چلے جانے کے بعد بالکل بے سہارا ہو گئے۔

یہ وہ المیہ ہے جو دنیا بھر میں بڑے شہروں میں، چھوٹے چھوٹے گاؤں میں، بھارت کی ریاست آسام سے لے کر امریکی ریاست نیو جرسی تک۔۔۔ ہر مقام پر موجود ہے۔

کرونا وائرس کا کوئی علاج موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس سے بچاؤ کی ویکسین کا دنیا نے شدت سے انتظار کیا۔ اب کئی طرح کی ویکسینز دستیاب ہیں اور لوگوں کو لگائی بھی جا رہی ہے، مگر پھر بھی موت کا سلسلہ رکا نہیں۔ اس وائرس کے نئے ویرئنٹ بہت سے ملکوں میں اب بھی زندگی کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

کووڈ 19 سے مرنے والوں کی تعداد کے تازہ ترین اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ اس ہفتے یہ تعداد انتہائی المناک حد تک پہنچ گئی ہے۔

انڈونیشیا کے قصبے بلانگ بنڈانگ میں ماسک پہنے ہوئے بچے اور خواتین ضرورت مندوں میں خوراک تقسیم کر رہی ہیں۔ 20 جون 2020
انڈونیشیا کے قصبے بلانگ بنڈانگ میں ماسک پہنے ہوئے بچے اور خواتین ضرورت مندوں میں خوراک تقسیم کر رہی ہیں۔ 20 جون 2020

اسی ہفتےجنوبی کوریا میں ایک روز میں سب سے زیادہ انفیکشنز سامنے آئے ہیں اور انڈونیشیا نے وبا کے دوران ایک روز میں سب سے زیادہ اموات کا سامنا کیا ہے۔

موت المیہ ہے مگر شاید بچوں پر اس کے اثرات سب سے زیادہ ہوتے ہیں، اور اس صورت میں تو اور بھی زیادہ جب ان کے ماں باپ میں سے کوئی ان کے ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو جائے۔

وکٹوریہ ایلزبتھ سوتو کی پیدائش تین ماہ پہلے ہوئی۔ لیکن اس کی پیدائش سے چھ روز بعد اس کی ماں ایلزبتھ سوتو ارجنٹائن کے ایک اسپتال میں کووڈ 19 سے انتقال کر گئیں البتہ وکٹوریہ انفیکشن سے محفوظ رہی۔

اس کے والد ڈئیگو رومن کہتے ہیں وہ اپنا غم تو برداشت کر رہے ہیں مگر اپنی بیٹی کو کیسے بتائیں گے کہ اس کی ماں کون تھی۔۔۔کہاں گئی۔۔۔مگر شاید کوئی تصویر اس بچی کو ماں کی صورت دکھا سکے۔۔۔بتا سکے کہ وہ تین برس کی آرزؤوں کے بعد پیدا ہوئی اور اس کی ماں کا ماں بننے کا سپنا پورا تو ہوا مگر پنپ نہ سکا۔

دنیا کے دیگر حصوں کی طرح افریقی ممالک میں بھی کرونا وائرس نے بچوں سے ان کے ماں باپ جدا کر دیے۔

شمو لوگو بونولو 8برس کی تھی جب جولائی 2020 میں اس کے والد کووڈ 19 کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ سال بھر سے وہ ان کے بغیر زندگی گزارنے کی کوشش کر رہی ہے مگر قدم قدم پر باپ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ پہلے تو ابا سکول چھوڑ کر آتے تھے اب بس سے جانا پڑتا ہے۔

سب سے زیادہ ان کی یاد تب آتی ہے جب کتابیں پڑھتے، کھیلتے وہ ساتھ نہیں ہوتے۔

لندن کے شمال مغربی علاقے میں نیوا ٹھکرار 13 برس کی ہے مگر گھاس کاٹتی ہے، گھر کی کار دھوتی ہے کیونکہ ایسا وہ اپنے ابا کے ساتھ مل کر کرتی تھی۔ وہ کہتی ہے ان کی یاد میں وہ سب کرتی ہے جو ان کی زندگی میں کیا کرتی تھی مگر کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ہے۔ دو ماہ تک اسپتال میں رہنے کے بعد اس کے والد مارچ میں انتقال کر گئے۔

بھارتی ریاست آسام کے شہر کوکراجھار میں دس سالہ جیشمی نرزری کے ماں باپ دونوں مئی میں دو ہفتوں کے اندر اندر انتقال کر گئے۔ وہ اب اپنی خالہ کے ساتھ رہتی ہے مگر اس سے پہلے خود اسے 14 روز تک قرنطینہ میں رہنا پڑا کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب بھارت امریکہ کےبعد کووڈ 19 کے سب سے زیادہ کیسز والا دوسرا ملک بن گیا تھا۔

کیہیتی کولانتیس کی عمر صرف چھ برس ہے۔ مگر اسے علم ہو چکا ہے کہ یہ وائرس کیا کر سکتا ہے۔ اس کی ماں اسی وائرس کی وجہ سے چلی کے ایک اسپتال میں چل بسیں۔

اب پین کیک اسے خود ہی بنانے پڑیں گے۔۔۔اور اب پاپا ہی اس کی ماما بھی ہیں۔

5 سالہ زاوین اور 3 سالہ جیزمین گزمین کو گود لینے والے ماں باپ دونوں ہی نیو جرسی کے ایک اسپتال میں کووڈ 19 کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ اب 29 سالہ جینیفر گزمین ان کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں میری ماں چلی گئیں اور اب مجھے ماں بننا پڑ رہا ہے۔

فلیپائن کے شہر کیوزون میں 38 سالہ آرتھر نیوالیز کی موت کے بعد ان کی بیوہ اینالن نیوالیز اور بچے شدید مالی مشکلات میں گھر گئے ہیں۔۔۔۔نہیں جانتے کہ آیا وہ اپنے نئے گھر میں اور رہ سکیں گے یا نہیں کیونکہ اینالین کی تنخواہ میں سب پورا ہونا مشکل نظر آتا ہے۔

میگی کیٹالانو کی عمر 13برس ہے۔ اس کے والد ایک میوزیشن تھے۔ انہوں نے میگی کو بھی ایک گٹار لا کر دی تھی اور اسے بجانا بھی سکھا رہے تھے۔۔۔کووڈ 19 کی انفیکشن کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہوئے اور پھر نو روز بعد گھر آ گئے۔

ابھی وہ پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئے تھے اور انہیں قرنطینہ میں رہنا تھا۔

میگی ان کے کمرے کے باہر گٹار بجا کر انہیں سناتی اور وہ ٹیکسٹ میسیج میں اس کی تعریف کرتے۔

سب امید کر رہے تھے کہ وہ جلد اچھے ہو جائیں گے۔۔۔مگر چار روز بعد اسی کمرے میں ان کا انتقال ہو گیا۔

اب ان کی یاد میں میگی گیت لکھتی ہے۔۔۔۔ان کی آخری رسومات میں اس نے گٹار بھی بجائی مگر کوئی جواب نہیں آیا۔

میگی کو حسرت ہے کاش اس کے پاپا دیکھ سکیں کہ اس نے کتنی مشق کی ہے اور اب وہ گٹار کتنی اچھی بجاتی ہے۔

کووڈ 19 کے ہاتھوں اپنے والدین کھو دینے والے بچے اپنی شوخی بھول چکے ہیں۔۔۔۔ان کی نظمیں ان کے گیت سب ان کے والدین کی یاد میں اداس ہیں۔۔۔۔۔ اگرچہ عزیز و اقارب ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں مگر وہ شرارتیں شاید کہیں کھو گئی ہیں جو صرف ماں باپ برداشت کرتے تھے۔

[رپورٹ کی زیادہ تر معلومات خبر رساں ادارے، اے پی سے لی گئی ہے]

XS
SM
MD
LG