پاکستان میں کرونا وائرس کی تیسری لہر کے دوران کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جب کہ ملک بھر میں ویکسی نیشن کا عمل بھی جاری ہے۔
وبا کی اس بگڑتی ہوئی صورت ِحال کے دوران مسلمانوں کے لیے رمضان کے مہینے میں روزے رکھنا بھی اہم ہے۔
مسلمان اس مہینے میں اپنی صحت کا خیال رکھتے ہوئے روزہ رکھنے کے ساتھ ساتھ عبادات بھی کر رہے ہیں۔
چوں کہ رمضان میں ہمیں سارا دن بھوکا اور پیاسا رہنا پڑتا ہے اور ایسے میں اگر کرونا وائرس میں مبتلا کوئی مریض روزہ رکھنا چاہے تو اس سے متعلق بے شمار لوگوں کے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔
کرونا وائرس کے مریض کے روزہ رکھنے اور احتیاطی تدابیر اپنانے سے متعلق کراچی کی ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے شعبہ ناک، کان، حلق کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کی کرونا ٹاسک فورس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی کہتے ہیں کہ کرونا وائرس میں مبتلا مریضوں کو انتہائی کم علامات سے لے کر سنگین ترین صورتِ حال تک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
کرونا میں مبتلا کون سی علامات والے مریض روزہ رکھ سکتے ہیں؟
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی نے بتایا کہ کرونا کے مریضوں کی علامات کو دیکھتے ہوئے ہی اس بات کا فیصلہ کیا جاتا ہے کہ آیا انہیں روزہ رکھنا چاہیے یا نہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مجموعی طور پر بیماری میں روزے رکھنے سے متعلق علما کا یہی فتویٰ ہے کہ اگر روزہ رکھنے سے جان کو خطرہ ہو یا صحت کی خرابی، مرض بڑھنے اور انسانی جسم کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو روزہ چھوڑ دینا چاہیے اور یہ تمام علما کا متفقہ فتویٰ ہے جس کا ہر رمضان میں اعادہ بھی کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بحیثیت ایک مسلمان میں یہ سمجھتا ہوں کہ روزہ ایک بہت قیمتی چیز ہوتی ہے اور اس کو چھوڑ دینا کوئی بہت آسان کام نہیں ہوتا خصوصاً ان لوگوں کے لیے جو روزہ رکھنے کے عادی ہوتے ہیں یا جو بچپن سے ہی روزے رکھ رہے ہوتے ہیں اور ہمیشہ روزے کی پابندی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر عاطف حفیظ صدیقی نے کہا کہ اگر کسی مریض کا کرونا کا ٹیسٹ مثبت آ جائے اور وہ 'اے سمٹیمیٹک' ہے یعنی اس میں کرونا کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہو رہیں اور وہ آئسولیشن میں ہے تو وہ بالکل روزے رکھ سکتا ہے۔
ان کے بقول ایسے مریض جن کا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا ہے اور ان میں کرونا کے 'مائلڈ سمپٹمز' ہیں بشمول ان مریضوں کے جن کی سونگھنے کی حس متاثر ہوئی ہے یا انہیں ذائقہ نہیں آ رہا ہے، لیکن ان علامات کے علاوہ وہ بالکل ٹھیک محسوس کر رہے ہیں تو انہیں روزے رکھ لینے چاہئیں۔
کرونا مثبت کے کون سے مریض روزے چھوڑ سکتے ہیں؟
ڈاکٹر عاطف حفیظ کے مطابق کسی مریض کی کیفیت اگر ایسی ہو کہ اسے کھانسی، جسم میں بہت درد ہو، بے تحاشا کمزوی محسوس ہو رہی ہو تو ایسے مریض اپنی حالت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے روزہ چھوڑ سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گھر میں آئسولیشن کے دوران بہت سے مریض ایسے ہیں جن کی آکسیجن سیچوریشن بالکل ٹھیک ہے اور انہیں اسپتال جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ البتہ انہیں کافی کمزوری محسوس ہوتی ہے اور ایسے میں اگر وہ روزہ رکھیں تو انہیں مزید کمزوری ہو جائے اور اس وجہ سے انہیں روزہ توڑنا پڑ جائے تو وہ ایک زیادہ مشکل مرحلہ ہو سکتا ہے۔
ان کے بقول بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑنے کی تو اللہ نے ہدایت دی ہے اور اس کی قضا بھی ممکن ہے لیکن اگر کسی کو ایسے روزہ توڑنا پڑے تو یہ ایک بہت سخت اور مشکل فیصلہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عاطف حفیظ کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں جب مریض کی صحت بالکل ہی خراب ہو تو اسے روزہ توڑنے کی اجازت ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کرونا میں مریض کو بخار ہے یا کمزوری ہے تو اسے بار بار پھل، جوس یا وٹامنز کی ضرورت پڑتی ہے اور روزے کی حالت میں یہ ممکن نہیں ہوتا۔ چنانچہ اگر کسی مریض کو ایسی علامات ہیں کہ اسے بے حد کمزوری ہو رہی ہو اور اسے بخار، کھانسی وغیرہ بھی ہو رہا ہو تو بھی وہ روزہ قضا کر کے اسے بعد میں پورا کر لے۔
'آکسیجن کی کمی یا اسپتال کی ضرورت پڑنے والے مریض روزہ بالکل نہ رکھیں'
ڈاکٹر عاطف حفیظ کے مطابق کرونا کے مریضوں کی ایک اسٹیج یہ ہوتی ہے جس میں مریض کو کھانسی کے ساتھ ساتھ آکسیجن کی کمی یا اسپتال جانے کی ضرورت پیش آ جاتی ہے تو وہاں مریض کو لازمی روزہ چھوڑ دینا چاہیے کیوں کہ اس سے ان کی صحت میں مزید خرابی کا اندیشہ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر عاطف نے کرونا کے مریضوں کو ہدایت کی کہ وہ اپنے وٹامنز لینے کے ساتھ ساتھ تازہ پھل اور جوس کا استعمال کریں تا کہ ان کی صحت بہتر رہے۔
کرونا مریض کے روزہ چھوڑنے کے حوالے سے کراچی کے علاقے سائٹ کی جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم مفتی نعمان نعیم کا کہنا ہے کہ اسلام ایک آسان دین ہے اور اسلام میں اس بات کی باقاعدہ اجازت ہے کہ روزہ رکھنے کی وجہ سے اگر کسی مریض کا مرض شدت پکڑ رہا ہو تو ایسی صورت میں اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔
ان کے بقول جہاں تک کرونا وائرس کا تعلق ہے تو ایسے مریض جس کی علامات تشویش ناک نہ ہوں اور اسے سانس لینے میں بھی مسئلہ نہ ہو اور ڈاکٹرز اسے بآسانی روزہ رکھنے کی تجویز کرتے ہیں تو وہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اگر ڈاکٹر کسی مریض کو روزہ رکھنے سے منع کرتے ہیں کیوں کہ اس کا مدافعتی نظام کمزور ہونا شروع ہو گیا ہو تو وہ اس صورتِ حال میں روزہ نہ رکھے۔
مفتی نعمان نعیم کا کہنا ہے کہ عام طور پر کرونا میں مبتلا مریضوں کو ایسی خوراک کا استعمال کرنا ہوتا ہے جس سے اس کا مدافعتی نظام مضبوط ہو تو بہتر یہ ہے کہ مریض اپنی حالت کو خود زیادہ بہتر جانتا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں روزہ نہیں رکھ سکتا تو وہ نہ رکھے۔