(شبّیر جیلانی) یہ بات ہے 2015 کے ورلڈ کپ کی۔ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کو بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی کا فون موصول ہوا جس میں اُنہوں نے 15 فروری کو پاکستان ۔ بھارت میچ سے ایک روز قبل نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ یوں ان دونوں لیڈروں نے کرکٹ کے بارے میں بات چیت کی۔
بعد میں مودی نے ایک ٹویٹ میں بتایا کہ اُنہوں نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ بنگلہ دیش، سری لنکا اور افغانستان کے سربراہان کو بھی فون کے ذریعے ایسی ہی نیک خواہشات پہنچائیں اُنہوں نے ٹویٹ میں لکھا، کرکٹ ہمارے خطے کو جوڑتا ہے اور خیر سگالی کو فراغ دیتا ہے۔
اس خیر سگالی کے اظہار سے پہلے بھارت اور پاکستان میں شدید محاذآرائی اور تناؤ کی کیفیت موجود تھی۔ تاہم نواز شریف کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے مودی نے دونوں ملکوں میں خارجہ سیکٹری سطح پر بات چیت بحال کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ اس اقدام کو تمام حلقوں کی طرف سے سراہا گیا۔
جنوبی ایشیا میں کرکٹ کو تقریباً تین دہائیوں سے سفارتی ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس کا آغاز پاکستان کے سابق فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق نے 1987 میں اُس وقت کیا جب بھارت اور پاکستان کے 800,000 فوجی تین ماہ تک سرحدوں پر صف آراء رہے اور خدشہ تھا کہ کوئی معمولی سی حرکت بھی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کی چنگاری کو بھڑکا سکتی ہے۔ ایسے حالات میں جنرل ضیا ءالحق کسی باضابطہ دعوت نامے کا انتظار کئے بغیر جہاز پر سوار ہو کر پاکستان اور بھارت کے درمیان ورلڈ کپ کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے بھارت کے شہر جے پور پہنچ گئے۔ بھارت کے اُس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی اگرچہ اُن کے استقبال کیلئے ہوائی اڈے نہیں پہنچے، اُنہیں بین الاقوامی سفارتی آداب کا خیال رکھتے ہوئے مجبوراً کرکٹ اسٹیڈیم آنا پڑا۔ اُنہوں نے وہاں ضیاء الحق سے سرد مہری کے ساتھ ہاتھ ملایا۔
کہا جاتا ہے کہ ضیا ءالحق اُنہیں ایک طرف لے گئے اور اُن کے کان میں انتہائی سنجیدگی سے کچھ کہا اور راجیو گاندھی نے بھی اسی سنجیدگی سے اُنہیں سنا۔ کچھ توقف کے بعد دونوں راہنماؤں کے چہروں پر مسکراہٹ نمودار ہونے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں ملکوں نے نہ صرف سرحدوں سے اپنی فوجوں کو واپس بلایا اور ممکنہ طور پر ایک بڑی جنگ کا خطرہ ٹل گیا بلکہ دوطرفہ بات چیت کا بھی آغاز ہو گیا۔
یوں تاریخ گواہ ہے کہ متعدد بار جب بھارت اور پاکستان کے درمیان دوطرفہ بات چیت کے دیگر چینل ناکام ثابت ہوئے تو کرکٹ کی سفارت کاری نے دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا ۔
ضیاءالحق کے بعد ایک اور فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے بھی کرکٹ میچ دیکھنے کے بہانے بھارت کا دورہ کیا جس کے نتیجے میں معطل شدہ دو طرفہ بات چیت کا از سر نو آغاز ہو گیا۔ لیکن دو طرفہ تعلقات کی بحالی میں کرکٹ کے کردار کا اہم ترین مظاہرہ فروری 1999 میں ہوا جب اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی دعوت پر ایک بس پر سوار ہو کر لاہور پہنچے۔ لاہور میں ایک اعشائیے کے دوران خطاب کرتے ہوئے واجپائی نے اپنی یہ نظم پڑھی تو تالیوں کی گونج دیر تک سنائی دیتی رہی۔
بھارت اور پاکستان پڑوسی دیش ہیں
ہمیں ایک ساتھ رہنا ہے
ہم کبھی جنگ نہ ہونے دیں گے
ہمارے کھیت اب کبھی خون کی فصل نہ اُگنے دیں گے
اس دورے کے نتیجے میں ’’لاہور ڈیکلیریشن‘‘ کے نام سے دو طرفہ اعلامیہ جاری ہوا جس میں اس بات کا عہد کیا گیا کہ دونوں ہمسایہ ممالک محاذآرائی کو ختم کرتے ہوئے دوستانہ تعلقات کو فروغ دیں گے۔ تاہم ایک اور اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ وزیر اعظم واجپائی نے بھارتی کرکٹ ٹیم کیلئے پاکستان کے دورے کی منظوری دے دی۔ یہ دورہ 19 برس کے تعطل کے بعد ممکن ہوا۔
جس روز بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان کے دورے پر روانہ ہونا تھا، اُس سے ایک روز قبل بھارتی وزیر اعظم نے کرکٹ ٹیم کو ایوان وزیر اعظم میں بلایا اور اُن سے ملاقات کے دوران بھارتی کرکٹ کھلاڑیوں باور کرایا کہ وہ دورے کے دوران جیت کیلئے بھی کھیلنے کے ساتھ ساتھ وہاں لوگوں کے دل بھی جیتیں۔ اس موقع پر پاکستانی حکام نے 20,000 بھارتی شائقین کو کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے خصوصی ویزے جاری کئے۔ اس دورے کے دوران مسلسل 37 روز تک پورا جنوبی ایشیا کرکٹ کے خمار میں مبتلا رہا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم میزبانی، محبت، خلوص اور خیر سگالی کے جذبات سمیٹے وطن واپس لوٹی۔
بعد اذاں اپریل 2011 میں سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے پاکستانی ہم منصب یوسف رضا گیلانی کو بھارت میں جاری کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران پاکستان۔بھارت میچ دیکھنے کیلئے مدعو کیا۔ دونوں وزرائے اعظم نے چندی گڑھ میں اکٹھے یہ میچ دیکھا۔ اس اقدام کے نتیجے میں اُس وقت کے امریکی نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا رابرٹ بلیک بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے اور اُنہوں نے ایک بیان میں پاکستانی وزیر اعظم کو کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے مدعو کرنے پر امریکی حکومت کی جانب سے بھارتی وزیر اعظم کے اقدام کو سراہا۔ اس دورے کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے درمیان سیکٹری داخلہ سطح پر بات چیت دوبارہ آغاز ہو گیا۔
تاہم ایسے دلیرانہ اقدامات کے باوجود متعدد مواقع پر مذہبی انتہاپسندوں کی جانب سے دوطرفہ کرکٹ رابطوں کی کھل کر مخالفت کی گئی۔ جنوری 1999 میں شیو سینا کے 25 کارندوں نے بھارت پاکستان کے کرکٹ میچ سے ایک رات قبل نئی دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ اسٹیدیم میں دھاوا بول دیا اور پچ اُکھاڑ کر اس بات کو یقینی بنا دیا کہ دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان کوئی کرکٹ میچ نہ کھیلے جا سکیں۔
اب سوال یہ ہے کہ سفارتی کوششوں میں جہاں رکاوٹیں آتی ہیں، کیا کرکٹ کی سفارت کاری سے دوبارہ فائدہ اُٹھایا جا سکے گا؟ اس بات کا کوئی حوصلہ افزا امکان دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ بھارت کے وزیر کھیل وجے گوئل نے حال ہی میں پاکستان کے ساتھ کسی بھی کرکٹ میچوں کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے دوطرفہ کرکٹ سیریز کیلئے پہلے سے تہہ کئے گئے معاہدے سے بھارت کے انکار کا معاملہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل میں لیجانے کا عندیہ دیا ہے۔ اس تفہیمی دستاویز میں دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈوں نے 2023 تک چھ دوطرفہ دوروں پر اتفاق کیا تھا۔ بھارتی وزیر کھیل نے کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کی کرکٹ اُس وقت تک بحال نہیں ہو سکتی جب تک پاکستان سرحد پار دہشت گردی کو یکسر ختم نہیں کرتا۔
یوں دو طرفہ تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے اب کرکٹ کی سفارت کاری سے فائدہ اُٹھانے کے امکانات کم از کم مستقبل قریب میں دکھائی نہیں دیتے۔