کرکٹ کی دسویں عالمی جنگ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے اور جمعرات دو بڑی طاقتوں بھارت اور آسٹریلیا میں سے کسی ایک کو عالمی کپ کے حصول کی دوڑ سے ہر صورت باہر نکلناپڑے گا ۔ کینگروز اس معرکے کو "منی فائنل" کا نام دے رہیں جس میں وہ مر مٹنے کو تیار ہیں جبکہ بھارتی ٹیم اپنی ہی سر زمین پر کسی صورت ہار ماننے کے لئے تیار نہیں اورفتح کے لئے وہ کوئی بھی حد پار کر سکتے ہیں ۔ اس صورتحال میں میدان میں اترنے سے قبل دونوں حریف سخت دباؤ میں نظر آ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس دباؤ کو کم کرنے کیلئے الفاظ کی جنگ کا سہارا لیا جا رہا ہے جس سے شائقین کی بے چینی میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔
ماہرین کے مطابق اس وقت دونوں حریف شکست کے خطرات سے شدید دباؤ میں ہیں ۔ بھارت کو ڈر ہے کہ اگر گروپ میچوں میں جس طرح اس کی مڈل اور لوئر آرڈر بیٹنگ جنوبی افریقہ اور ویسٹ انڈیز کے خلاف تباہ ہوئی اگر ایسا ہی کل بھی ہوا تو اسے عوامی غضب سے کون بچائے گا جبکہ پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد آسٹریلیا بھی نہ صرف شدید تنقید کی زد میں ہے بلکہ گزشتہ کئی مقابلوں میں آؤٹ آف فارم کینگروز کیپٹن رکی پونٹنگ کی قیادت پر بھی متعددسوالیہ نشان اٹھائے جا رہے ہیں ۔
بھارت کی سب سے بڑی کمزوری یعنی ان کاخاطر خواہ بالنگ اٹیک کا نہ ہونا آسٹریلیا کے لئے خوش آئند ہے۔ اب تک ظہیر خان ہی حریف ٹیم کی بیٹنگ لائن پر کسی حد تک قابو پانے میں کامیاب نظر آئے جبکہ امیدوں کا مرکز اسپنر ہربھجن سنگھ بھی تاحال حریف بیٹنگ لائن پر حاوی نہیں ہو سکے ۔لہذا کینگروز بھارت کے اس منفی نکتے سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے ۔بھارت کا پلس پوائنٹ اس کی مضبوط بیٹنگ لائن ہے تاہم جس طرح مڈل اور لوئر آرڈر خاص طور پرجنوبی افریقہ کے خلاف 29 رنز کے عوض آخری آٹھ وکٹوں کا گرنا اور اس کے بعد ویسٹ انڈیز کے خلاف 50 رنز کا سودا سات وکٹوں سے کرنا انتہائی تشویشناک پہلو اجاگر کرتا ہے ۔
بھارت کو اس الزام کا بھی سامنا ہے کہ وہ اپنے گروپ مقابلوں میں ہاٹ فیورٹ جنوبی افریقہ اور انگلینڈ کے خلاف فتح حاصل نہیں کرسکا اورصرف کمزور ٹیموں پر ہی ہاتھ صاف کرتا رہالہذا اگر وہ کل فتح حاصل کرتا ہے تو یہ نہ صرف اس کی عالمی کپ میں پہلی بڑی فتح کہلائے گی بلکہ ا س کا عالمی کپ میں 24 سال بعد کینگروز کو چت کرنے کا خواب پورا ہو گا ۔ میگا ایونٹ میں بھارت ہمیشہ کینگروز کے خلاف سخت دباؤ کا شکار رہا جس کی مثال یہ ہے کہ اس نے سات مقابلوں میں سے صرف دو میں فتح حاصل کی تاہم پاکستان کی کنیگروز سے فتح اس کے لئے مشعل راہ ثابت ہو سکتی ہے ۔
بھارتی عوام کو کرکٹ سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے لہذاعوام نے اپنے کرکٹ ہیروز سے بہت سی توقعات وابستہ کررکھی ہیں ۔ بھارتی عوام کینگروز کے ہاتھوں شکست کوآسانی سے ہضم نہیں کر پائیں گے۔ بھارتی ٹیم پر یہ نکتہ بھی دباؤ کی صورت موجود ہے ۔مبصرین کے مطابق اس تمام تر صورتحال میں یوراج سنگھ کا یہ بیان کہ دفاعی چیمپین آسٹریلیا میں دم خم نہیں رہا ، اسی دباؤ کو کم کرنے کی ایک کوشش ہے ۔ یوراج کا موقف ہے کہ گلین میگرا، شین وارن اور ایڈم گلکرسٹ کے ریٹائرڈہونے کے بعد آسٹریلیا کو چت کرنا آسان ہے اور آسٹریلوی اٹیک کے لئے بھارتی بیٹنگ لائن تیار ہے ۔
دوسری جانب ہسی کا کہنا ہے کہ کینگروز میں اب بھی اتنا دم ہے کہ وہ بھارت جیسی ٹیم کو چت کر سکیں ۔اس سے پہلے بھی بھارتی سر زمین پر ہم کئی سیریز اپنے نام کر چکے ہیں اور ایک بار پھرہم بھارت کے خلاف بھر پور طاقت کا مظاہرہ کرنے کیلئے تیار ہیں ۔یاد رہے کہ اب تک دونوں ٹیموں کے درمیان ہونیو الے ایک روزہ مقابلوں میں آسٹریلیا کو بھارت پر 61 فتوحات کی برتری حاصل ہے ۔
کل اصل مقابلہ آسٹریلوی پیسر اور بھارتی بیٹنگ کا ہو گا کیونکہ آسٹریلوی بیٹنگ لائن بھی اب تک عالمی کپ میں خاطر خواہ کارکردگی دکھاتی نظر نہیں آئی اور اب تک اس کا کوئی بلے باز بھی گروپ میچوں میں ٹرپل فگرز میں داخل نہیں ہو سکا ۔ اس نے بھی یہ مقام حاصل کرنے کیلئے صرف نیوزی لینڈ کو ہی شکست دی جبکہ باقی تمام چھوٹی ٹیموں کا سہارا لیا ۔ یہی وجہ ہے کہ رکی پونٹنگ شدید دباؤ میں نظر آ رہے ہیں۔ آسٹریلوی کوچ ٹم نیلسن نے بھی پونٹنگ سے مطالبہ کیا ہے کہ کوارٹر فائنل میں وہ اسکور بورڈ میں اپنے نام کے ساتھ بڑا ہندسہ لگائیں ۔رکی پونٹنگ نے ورلڈ کپ کے ابتدائی مرحلے میں 20.40 کی اوسط سے مجموعی طور پر 102 رنز بنا رکھے ہیں جو ان کے لئے سخت پریشانی کا باعث ہے ۔
رکی پونٹنگ کو یاد رکھنا ہو گا کہ کل وہ سچن ٹنڈولکر اور سہواگ جیسے اسٹارز سے سجی ٹیم کے مد مقابل ہیں ، سہواگ نے ورلڈ کپ کے ابتدائی مرحلے میں 327 جبکہ ٹنڈولکر نے 326 رنز بنا رکھے ہیں ۔ اس کے علاوہ یوراج سنگھ بھی متعدد ٹیموں کی بالنگ لائنز کے سامنے ڈٹ چکے ہیں اور اب تک 284 رنز بنا رکھے ہیں ۔ ظہیر خان جنہوں نے 15 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں ان کے خلاف بھی خاص حکمت عملی ضروری ہے ۔ دوسری جانب بریٹ لی 12 جبکہ مائیکل جونسن اور مائیکل کلارک دس ، دس وکٹوں کے ساتھ کل بھارتی بیٹنگ کے خلاف بھی بہترین ٹرائیکا ثابت ہو سکتا ہے ۔