متحدہ امارات کئی برسوں سے پاکستان کا ہوم گراؤنڈ رہا ہے۔ خاص طور پر لاہور میں 2009 میں سری لنکن ٹیم پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان کیلئے یہ مجبوری بن گئی کہ وہ اپنی تمام ہوم سیریز امارات میں ہی کھیلے۔ یوں پاکستان نے شارجہ ، دبئی اور ابوظہبی میں اپنی تمام سیریز میں ایسی وکٹیں بنوائیں جو تیز بالروں کے بجائے سپنرز کیلئے زیادہ سازگار ثابت ہوتی رہیں۔ خاص طور پر میچ کے چوتھے اور پانچویں روز وکٹ پر سپنز مکمل طور پر حاوی رہنے لگے۔ پاکستانی ٹیم تقریباً ہر بار دو سپرز کے ساتھ میدان میں اترتی رہی جس میں یاسر شاہ کے منظر عام پر آنے سے پہلے سعید اجمل کے ساتھ ذوالفقار بابر یا پھر عبدالرحمٰن مخالف بیٹسمینوں پر مکمل کنٹرول حاصل کرتے رہے۔ اُن کے علاوہ ٹیم کو محمد حفیظ اور شعیب ملک کی خدمات بھی حاصل رہیں اور یوں پاکستانی ٹیم مخالف ٹیم پر دباؤ بڑھانے میں اکثر کامیاب رہی۔
پاکستانی ٹیم میں سپنرز کا کردار 2012 میں انگلستان کو صرف 72 رنز پر ڈھیر کر دینے سے ظاہر ہوتا ہے جس میں پاکستان کی طرف سے پھینکے گئے کل 36.1 اوورز میں 33.1 اوور سپنرز نے کرائے تھے۔ تاہم سری لنکا کے خلاف دو ٹیسٹ میچوں کی حالیہ سیریز میں صرف ایک اسپیشلسٹ سپنر یاسر شاہ کو کھلایا گیا۔ یوں یاسر شاہ پر بالنگ کا بوجھ اس قدر زیادہ رہا کہ ان دو ٹیسٹ میچوں میں اُن سے 151.5 اوور کرائے گئے اور کپتان سرفراز احمد کو نان ریگولر بالرز اسد شفیق اور حارث سہیل پر بھی انحصار کرنا پڑا۔
اس سیریز میں سپنرز کے بجائے تیز بالروں پر انحصار کیا گیا جو مجموعی طور پر غیر مؤثر رہے۔ یوں تین تیز بالر اور ایک سپنر کے ساتھ پاکستانی ٹیم اپنے مقاصد حاصل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی۔
تیز بالروں کے انتخاب کے حوالے سے بھی بہت سے سوال کھڑے ہوگئے۔ دونوں ٹیسٹ میچوں میں سری لنکن بیٹسمین پاکستان کے تیز بالروں پر پوری طرح حاوی رہے۔ اُن کے مقابلے میں سری لنکا کے تیز بالر نہ صرف زیادہ فٹ دکھائی دئے بلکہ اُنہوں نے بیٹنگ کیلئے سازگار وکٹ پر بھی نہایت نپی تلی بالنگ کی اور پاکستانی بلے بازو ں کیلئے مستقل طور پر مسائل کھڑے کئے۔ خاص طور پر پہلی بار ٹیسٹ کھیلنے والے تیز بالر لاہیرو گاماگے نے گیند کو اندر لاتے ہوئے دائیں ہاتھ سے بٹینگ کرنے والے بلے بازوں کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا اور ماہرین سے خوب داد حاصل کی۔
پاکستانی تیز بالروں کی فٹنس بھی مشکوک رہی۔ حسن علی پہلے ٹیسٹ کے دوران اور محمد عامر دوسرے ٹیسٹ کے دوران ان فٹ ہو گئے۔ وہاب بھی اپنی کارکردگی میں تسلسل پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ دوسرے ٹیسٹ کی دوسری اننگ میں اگرچہ اُنہوں نے وکٹیں حاصل کیں مگر وہ کم از کم پانچ مرتبہ اپنا بالنگ رن اپ بھول گئے۔
بیٹنگ میں یونس خان اور مصبح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستانی لائن اپ ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ ان دونوں عظیم کھلاڑیوں کی موجودگی میں بھی اظہر علی نے قابل بھروسہ بیٹسمین کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوایا تھا۔ تاہم اُنہیں اوپنر کے بجائے نمبر تین پر کھلایا گیا۔ اوپنر کی حیثیت سے اُن کے بلے نے خوب رنز اگلے تھے اور اُنہوں نے 2016 میں انگلستان کے خلاف سیریز سے لیکر موجودہ سیریز سے قبل تک 63.09 کی اوسط سے 4 سنچریاں اور 5 نصف سنچریاں بنائیں جن میں ناقابل شکست 302 اور 205 رنز کی اننگز بھی شامل ہیں۔ اظہر علی کو نمبر تین پر لاتے ہوئے پاکستانی ٹیم نے دو نئے کھلاڑیوں شان مسعود اور سمیع اسلم کو آزمایا جنہوں نے اس سے قبل کبھی ایک ساتھ افتتاحی جوڑے کی حیثیت سے ٹیسٹ نہیں کھیلا تھا۔ گذشتہ پانچ برسوں میں ان دونوں اوپنز کی ایوریج نہایت ہی کم رہی۔ یہ دونوں اوپنر سری لنکا کے خلاف پہلے ٹیسٹ کی پہلی اننگ میں نصف سنچریاں بنانے میں کامیاب رہے۔ تاہم دونوں میں سے کوئی بھی اپنی نصف سنچری کو بڑے اسکور میں تبدیل نہ کر سکا۔ سیریز کی باقی تینوں اننگز میں دونوں اوپنرز میں سے کوئی 40 رنز تک بھی نہ پہنچ سکا۔
پاکستانی ٹیم نے گزشتہ برس ٹیسٹ کرکٹ کی رینکنگ میں نمر ایک پوزیشن حاصل کر لی تھی۔ تاہم اس کے فوراً بعد اس کی کارکردگی مسلسل گرتی چلی گئی۔ پاکستانی ٹیم گزشتہ 11 ٹیسٹ میں سے 9 میں شکست کی حزیمت سے دو چار ہوئی اور جو دو ٹیسٹ اس نے جیتے وہ ویسٹ انڈیز کے خلاف تھے۔ ان 11 ٹیسٹ میچوں سے قبل پاکستانی ٹیم نے مسلسل 7 سیریز میں فتح حاصل کی تھی۔
کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستانی ٹیم کی ان کامیابیوں میں قسمت کا بھی کچھ عمل دخل رہا ہے۔ پاکستانی ٹیم کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے بڑا اسکور بنایا جائے اور پھر مخالف ٹیم کو سپنز کی مدد سے زیر کر لیا جائے۔ پاکستا ن نے 2012 میں انگلستان کے خلاف تین میں سے دو ٹیسٹ میچوں میں ٹاس جیتا، پھر 2014 میں آسٹریلیہ کے خلاف دونوں ٹیسٹ میچوں میں ٹاس جیتا ۔ 2015 میں انگلستان کے خلاف تینوں ٹیسٹ میں ٹاس جیتا اور گزشتہ سال ویسٹ انڈیز کے خلاف بھی تینوں ٹیسٹ میچوں میں ٹاس پاکستان ہی کے حق میں رہا۔ تاہم سری لنکا کے خلاف حالیہ سیریز میں دونوں ٹیسٹ میچوں میں سری لنکا نے ٹاس جیت کر پاکستان کے خلاف وہی حکمت عملی اپنائی جو وہ اس قبل اپناتا آیا ہے اور دونوں ٹیسٹ میچوں کی پہلی اننگ میں سری لنکا نے 419 اور 482 رنز بنا ڈالے۔
سری لنکا کے خلاف اس سیریز کے بعد پاکستانی ٹیم چھ ماہ بعد انگلستان کے خلاف ٹیسٹ سیریز کھیلے گی۔ یوں اگلے چھ ماہ کے دوران پاکستان کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلے گا۔ لہذا اب سے کڑا امتحان فٹنس اور فارم برقرار رکھنا ہے۔ پاکستانی ٹیم کو نئے اوپنز بھی تلاش کرنے ہوں گے اور ممکنہ طور پر اظہر علی کو دوبارہ اوپنر کی حیثیت سے کھلانا ہو گا۔ مڈل آرڈر میں فواد عالم ایک اچھا اضافہ ثابت ہو سکتے تھے لیکن سلیکٹرز نجانے کیوں اُنہیں مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں۔ اسد شفیق اس سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں سنچری بنا کر بڑی حد تک فارم میں واپس آ گئے ہیں۔ تاہم اُنہیں فارم کا تسلسل برقرار رکھنے میں خاصی محنت کرنا پڑے گی۔