پاکستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کے بارے میں غیر سرکاری ادارے کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اگست کے مہینے میں دہشت گردی اور تشدد کے 18 واقعات رونما ہوئے جو جولائی میں ہونے والے واقعات سے زیادہ ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق تشدد اور دہشت گردی کے 18 واقعات میں مجموعی طور پر 24 افراد ہلاک جبکہ 90 زخمی ہوئے۔
ہلاک ہونے والوں میں سکیورٹی فورسز کے 11 اہلکار جبکہ 13 عام شہری شامل ہیں۔
اگست میں دہشت گردی کے واقعات میں 90 افراد زخمی ہوئے جن میں 17 سکیورٹی اہلکار جبکہ 73 عام شہری تھے۔
خیبر پختونخوا کے بعد زیادہ تر دہشت گردی کے واقعات بلوچستان میں ہوئے۔
خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں آٹھ حملوں میں سکیورٹی فورسز کے آٹھ اہلکاروں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے۔
صوبے میں ضم ہونے والے اضلاع میں دہشت گردی کے واقعات میں 13 افراد زخمی ہوئے جن میں آٹھ سکیورٹی اہلکار جبکہ پانچ عام شہری شامل تھے۔
خیبر پختونخوا میں ضم کیے گئے اضلاع کے علاوہ باقی صوبے میں دہشت گردی کے چار واقعات ہوئے۔ جن میں ایک سکیورٹی اہلکار سمیت سات افراد مارے گئے جبکہ 33 افراد زخمی ہوئے جن میں 27 عام شہری اور چھ سکیورٹی اہلکار شامل تھے۔
مبصرین کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں کے دوران خبیر پختونخوا میں ضم ہونے والے اضلاع میں شدت پسندوں کی سرگرمیوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔
بلوچستان میں دہشت گردی کے پانچ واقعات میں چھ افراد مارے گئے جبکہ 43 افراد زخمی ہوئے جن میں دو سیکورٹی اہلکار شامل تھے۔
دارالحکومت اسلام آباد میں ٹول پلازہ پر دہشت گردوں کے حملے میں دو سکیورٹی اہلکار نشانہ بنے۔
سندھ، پنجاب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا ۔
بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سکیورٹی فورسز پر 10 دیسی ساختہ بم حملے کیے گئے جبکہ دونوں صوبوں میں ٹارگٹ کلنگ کے تین واقعات پیش آئے۔
سیکورٹی فورسز نے دہشت گروں کے خلاف تین بڑی کارروائیاں کیں۔ خیبر پختونخوا میں کارروائی کے دوران چار مبینہ دہشت گرد ہلاک ہوئے جبکہ سندھ میں تین مبینہ شدت پسندوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔
'انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز ' کے ڈائریکٹر گل داد نے 'وائس آف امریکہ' کو بتایا کہ مشرقی سرحد پر کشمیر اور مغربی سرحد پر افغانستان کی صورت حال کے باعث عسکریت پسند گروہ دوبارہ سرگرمیاں شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگست میں تشدد کے واقعات زیادہ ہوئے ہیں مگر ان میں رواں سال جولائی کی نسبت جانی نقصان کم ہوا ہے ۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت علی یوسف زئی نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گرد مختلف علاقوں میں موجود ہیں مگر فوج، پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار بھی ان کے خلاف مستعد ہیں۔
ان کے بقول ماضی کے نسبت اب امن و امان کی صورت حال بہتر ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ تشدد کی بڑھتے ہوئے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ دہشت گردی میں ملوث گروہ کسی بھی قیمت پر امن کی بحالی نہیں چاہتے۔ اسی وجہ سے سرحد کے دونوں جانب چھپے ہوئے عسکریت پسند دوبارہ سرگرم ہو رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اگست میں عسکریت پسندی میں ملوث کالعدم تنظیموں سے وابستہ مبینہ دہشت گردوں نے سوات، بونیر، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں دھمکی آمیز خطوط بھی تقسیم کیے تھے۔ اسی طرح سرحد پار افغانستان میں موجود کالعدم شدت پسند تنظیم کے ترجمان نے باجوڑ، دیر، مہمند سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں پُر تشدد واقعات کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج اور انسانی حقوق کمیشن سے وابستہ جسٹس ریٹائرڈ شیر محمد خان نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان سابق سویت یونین کے خلاف امریکی جنگ میں فریق بن کر ازخود عسکریت پسندی کے رجحان کو پروان چڑھانے کا ذمہ دار ہے۔
خیال رہے کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان امریکہ کی معاونت کر رہا ہے اور افغان امن عمل میں طالبان سے مذاکرات کروانے میں اسلام آباد نے اہم کردار ادا کیا ہے اب جبکہ افغانستان میں قیام امن کے لیے کوشش کی جا رہی ہے تو عسکریت پسندی میں ملوث گروہ مبینہ طور پر اپنی بقا کے لیے ایک بار پھر کارروائیاں تیز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
پاکستان کی حکومت نے 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد 'قومی لائحہ عمل' ترتیب دیا تھا۔
تمام جماعتوں کی حمایت سے بننے والے لائحہ عمل کا مقصد انتہا پسندی اور عسکریت پسندی پر قابو پانا تھا تاہم حزب اختلاف میں شامل زیادہ تر جماعتیں اس لائحہ عمل پر عمل درآمد سے مطمئن دکھائی نہیں دیتیں۔