پاکستان کے شہر پشاور میں پولیس نے شدت پسند تنظیم داعش (دولتِ اسلامیہ) سے تعلق رکھنے کے الزام میں ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا ہے۔
مبینہ شدّت پسند کو داعش کا پرچار کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جس کی شناخت مقرب شاہ کے نام سے کی گئی ہے۔
پولیس حکام کے مطابق ملزم پنجاب کے علاقے بہاول پور میں داعش سے منسلک شدّت پسندوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔ جس کو پشاور کی مقامی عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ ہونے کے بعد گرفتار کیا گیا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ مقرب شاہ ایک مقامی مدرسے سے منسلک تھا۔ اس سے مزید تحقیقات کی جائیں گی۔
واضح رہے کہ گزشتہ کئی برس سے وفاقی اور صوبائی اداروں کے اعلیٰ عہدے دار پاکستان اور بالخصوص خیبر پختونخوا میں داعش کی موجودگی سے انکار کرتے رہے ہیں۔ دوسری جانب 2015 سے مختلف شہروں سے اس تنظیم سے وابستہ افراد کی گرفتاریاں بھی ظاہر کی جاتی رہی ہیں۔
پشاور میں جولائی 2015 میں پہلی بار داعش سے تعلق رکھنے کے الزام میں تین مبینہ شدّت پسندوں کو گرفتار کیا گیا تھا جب کہ جنوری 2018 میں پشاور سے ہی 72 افراد کو دولتِ اسلامیہ سے وابستگی کے الزام میں حراست میں لیا گیا جن میں کچھ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل تھے۔
شدّت پسند تنظیم داعش نے مختلف شہروں میں ہونے والے دہشت گردی کے متعدد واقعات کی ذمّہ داری بھی قبول کی ہے جن میں سب سے بڑا واقعہ 22 اپریل 2019 کو کوئٹہ میں ایک امام بارگاہ پر ہونے والا خودکش حملہ تھا۔ اس حملے میں 22 افراد ہلاک اور 48 زخمی ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ داعش نامی یہ شدّت پسند تنظیم 2015 سے افغانستان اور پاکستان میں شدّت پسندی کی مختلف کارروائیوں میں مصروف ہے البتہ پاکستان کے اعلیٰ سیاسی اور فوجی حکام اس تنظیم کی پاکستان میں موجودگی سے انکار کرتے رہے ہیں۔
پاکستان، افغانستان اور دیگر وسط اشیائی ممالک کے لیے داعش نے ایک 40 رُکنی انتظامی کونسل بھی قائم کی ہوئی ہے۔
تجزیہ کار خادم حسین نے 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں کہا ہے کہ القاعدہ اور تحریکِ طالبان سے منسلک جنگجو داعش میں شامل ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر خادم حسین کے مطابق بعض حلقوں کی کوشش ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں جنگ جاری رہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ داعش کی موجودگی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ، پاکستان اور افغانستان سمیت دیگر ملکوں کو بھی داعش کو متحرک ہونے سے روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔