رسائی کے لنکس

شاہ رخ جتوئی کی بریت: 'یہ جرم ایک شخص نہیں بلکہ معاشرے کے خلاف تھا'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی وفاقی حکومت نے شاہ زیب قتل کیس کے ملزمان کی رہائی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست دائرکرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب شاہ رخ جتوئی اور ان کے ساتھیوں کی بریت کے بعد ملک کے نظامِ انصاف پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ طاقت ور اور امیر طبقہ تمام قانونی رکاوٹیں دور کرتے ہوئے اپنا مقصد حاصل کرلیتا ہے۔اس بحث میں ریاست کے کردار پر بھی بات کی جا رہی ہے کہ ایسے فیصلوں کو روکنے اور مظلوم کو انصاف دلوانے کے لیے اس کا کردار کہاں ہے؟

شاہ رُخ جتوئی کی بریت کے فیصلے پر اٹارنی جنرل آفس کی پریس ریلیز میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل آفس کو اس فیصلے پر تشویش ہے۔ اس لیے ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے ذریعے اس فیصلے کے خلاف نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی جائے گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق لواحقین کی طرف سے معاف کیے جانے کے بعد بھی اگر ریاست چاہے تو ’فساد فی الارض‘ سے متعلق قانون موجود ہے۔ یہ جرم کسی ایک شخص کےخلاف نہیں بلکہ معاشرے کے خلاف تھا، لہٰذا اس پر ریاست کی طرف سے کارروائی ہونی چاہیے تھی۔

اٹارنی جنرل آفس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں اٹارنی جنرل کا مؤقف نہیں سنا گیا۔ اٹارنی جنرل اشتر اوصاف قبل ازیں کیس کی سماعت کے دوران اپنا مؤقف پیش کر چکے ہیں کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا۔

کیا ریاست کا کردار موجود ہے؟

پاکستان کے قانون میں قتل کے مقدمات میں دیت کے ساتھ ساتھ فریقین میں عدالت کے باہر صلح کا موقع موجود ہے۔ ایسے میں بعض اوقات مقدمات میں عدالت کے باہر فریقین میں صلح ہو جاتی ہے اور مقدمات ختم ہو جاتے ہیں جب کہ دیت یعنی خون بہا ادا کرکے بھی ملزمان کو معاف کیا جاتا ہے۔

اسلام آباد کی اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی کی شریعہ اکیڈمی کے سابق ڈائریکٹر جنرل پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد کہتے ہیں کہ اگر مقتول کے لواحقین مجرم کو معاف بھی کر دیں تو بھی ریاست کا حق برقرار ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ یہ جرم کسی ایک شخص کے خلاف نہیں بلکہ مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کے خلاف ہے۔

ان کے بقول پاکستان میں دیت کے قانون پر تنقید کی جاتی ہے کہ انصاف کی نجکاری کر دی گئی ہے۔ اسلامی قانون میں مقتول کے لواحقین کو یہ حق حاصل ہے البتہ ریاست کا حق اپنی جگہ موجود ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پینل کوڈ میں ’فساد فی الارض‘ کی تعریف بتائی گئی ہے، لواحقین کی طرف سے معاف کیے جانے کے باوجود عدالت اس معاملے کو اسی سیکشن کے تناظر میں ’فساد فی الارض‘ سمجھتے ہوئے ملزم کو سزا سنا سکتی ہے، جو سزائے موت بھی ہوسکتی ہے۔

’ریاستی مشینری کیس لڑنے میں ناکام رہی‘

پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 302-سی میں کہا گیا ہے کہ تعزیر کی صورت میں بھی عدالت عمر قید یا کوئی بھی سزا سنا سکتی ہے، اس کیس میں قانون موجود تھا البتہ ریاست نے اپنی ذمہ داری ادا نہیں کی۔

پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد کے مطابق ہم کہہ سکتے ہیں کہ قانون کی نہیں بلکہ ریاستی مشینری کی ناکامی ہے کہ وہ اس کیس کو لڑنے میں ناکام رہی ہے۔

دیت اور قصاص کے حوالے سے مذہبی اسکالر خورشید ندیم نے کہا کہ بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قصاص اور دیت کا قانون روایتی علما کے مؤقف پر بنا ہے، جس کے مطابق مقتول کے لواحقین کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ قاتل کو دیت کے بدلے معاف کر دیں یا ویسے ہی معاف کر دیں۔

ان کے مطابق ریاست کا حق باقی نہیں رہتا، یہ بات درست نہیں ہے۔ علما کا ایک بڑاگروہ ایسا بھی ہے جن کا کہنا ہے کہ صرف لواحقین کا معاف کر دینا کافی نہیں ہے۔اگر کسی جرم کی سنگینی کی وجہ سے ریاست سمجھے کہ سزا ضروری ہے اور سزا نہ ملنے سے جرم کا پھیلاؤ ہو سکتا ہے، تو ریاست کا حق موجود ہے۔

’چوری اور قذف پر متاثرہ شخص کی معافی کے باوجود سزا ہوتی ہے‘

خورشید ندیم نے کہا کہ قانون کے مطابق اگر کوئی شخص چوری کرے اور اس سے متاثرہ شخص اگر اسے معاف بھی کر دے، تو بھی ریاست اس کو سزا ضرور دے گی۔ ایسے ہی قذف یعنی جھوٹی گواہی کے معاملے میں ہے، جس میں اگر کوئی متاثرہ شخص معاف بھی کردے تو بھی سزا ملتی ہے۔

اس معاملے میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر مقتول کے اہلِ خانہ کی طرف سے قاتل کو معاف کر دیا گیا ہے تو کیا اس بات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ آیا کہیں یہ سب کچھ دباؤ کے تحت تو نہیں ہوا؟ اس بارے میں پروفیسر ڈاکٹر مشتاق احمد کہتے ہیں کہ اس معاملے میں مقتول کے لواحقین نے معافی دی۔ اس بارے میں بھی اسلامی قوانین اور پاکستان پینل کوڈ میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے اس کو دیکھنا ہے کہ راضی نامہ یا صلح بغیر کسی دباؤ کے تحت ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر عدالت میں آکر ورثا کہیں بھی کہ انہوں نے اللہ کی رضا کی خاطر معاف کیا ہے، تو پھر بھی عدالت کو تمام حالات و واقعات کا جائزہ لینا چاہیے تھا اور دیکھنا چاہیے تھا کہ کہیں یہ سب کسی دباؤ کی وجہ سے تو نہیں ہو رہا۔اس بارے میں قانون موجود ہے لیکن اس کو عمل کرنے میں دلچسپی نہیں دکھائی گئی۔

’حکومت کی کچھ خاص سنجیدگی نظر نہیں آ رہی‘

اٹارنی جنرل کی طرف سے نظرِ ثانی درخواست کے بارے میں ڈاکٹر مشتاق کا کہنا تھا کہ حکومت نے عوامی دباؤ کی وجہ سے اعلان تو کیا ہے لیکن اس میں کچھ خاص سنجیدگی نظر نہیں آ رہی۔ اس بارے میں ایک اور مسئلہ ہے کہ کریمنل کیس میں نظرِ ثانی میں فیصلے کی تبدیلی کا امکان بہت کم ہوتا ہے۔ اگر حکومت سنجیدگی سے اس معاملے کو لے تو شاید عدالت بھی ان کی بات کو اہمیت دے۔

اسلام آباد کے سابق ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی کہتے ہیں کہ اس کیس میں فی سبیل اللہ معاف کرنے کا کہا گیا ہے لیکن اس میں ریاست اور عدالت کو دیکھنا چاہیے تھا کہ کیا ایسا دباؤ میں تونہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے کن وجوہات کی بنا پر یہ فیصلہ دیا ہے، اس بارے میں تفصیلی فیصلہ سامنے آنے پر ہی دیکھا جا سکتا ہے البتہ ایک بات اہم ہے کہ اس معاملے سے معاشرہ متاثر ہوا ہے اور اس میں ریاست کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اس معاملے پر پاکستان علما کونسل نے بھی چیف جسٹس سے نظرِ ثانی کی درخواست کی ہے۔

’شاہ رخ جتوئی کا کیس صرف ایک قتل نہیں فساد فی الارض ہے‘

پاکستان علما کونسل کے سربراہ حافظ طاہر اشرفی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ شاہ رخ جتوئی کا کیس صرف ایک قتل نہیں بلکہ ’فساد فی الارض‘ اور معاشرے میں طاقت کی بنیاد پر قتل و قتال پھیلانے کا کیس ہے۔چیف جسٹس اس کیس پر نظرِ ثانی کریں اور اس کو از سر نو دیکھا جائے۔

اس کیس کے حوالے سے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کی زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ اس بارے میں ریاست کو فوری کارروائی کرنی چاہیے تھی کیوں کہ اس کیس میں نظر آ رہا ہے کہ پیسے اور طاقت والے سزا سے بچ جاتے ہیں۔

زہرہ یوسف نے کہا کہ مقتول شاہ زیب کے والد پولیس افسر تھے، ان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا گیا اور قتل کے کچھ عرصے بعد ہی وہ معافی پر تیار تھے البتہ سپریم کورٹ کی مداخلت پر دہشت گردی کی دفعات کیس میں شامل کی گئیں، اسی وجہ سے یہ کیس اتنا عرصے چلا البتہ اب مبینہ طور پر دباؤ اور پیسے کے زور پر ایک مقتول کو انصاف فراہم نہیں کیا گیا اور دہشت گردی کی دفعات ہٹنے کے بعد ملزمان کو بری کر دیا گیا۔

’کئی کیسز میں صلح نامہ عدالتوں نے تسلیم نہیں کیا‘

سابق ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی کہتے ہیں کہ کئی کیسز میں باقاعدہ صلح نامہ ہو جاتا ہے لیکن عدالتوں نے انہیں تسلیم نہیں کیا۔

ان کے مطابق طیبہ تشدد کیس میں بھی متاثرہ بچی اور ملزمان کے درمیان صلح نامہ سامنے آ گیا تھا لیکن عدالت نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ملزمان کو سزائیں سنائی تھیں۔

نیاز اللہ نیازی نے کہا کہ اس کیس کی وجہ سے ملک میں ایک بار پھر نظر آ رہا ہے کہ قانون صرف غریب اور کمزور کے لیے ہے جب کہ طاقت ور کے لیے قانون کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔

شاہ زیب قتل کیس تھا کیا؟

شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں نے 2012 میں کراچی کے پوش علاقے کلفٹن میں نوجوان شاہ زیب خان کو ذاتی رنجش پر گھر کے سامنے فائرنگ کرکے قتل کیا تھا۔

واقعے کے بعد مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی دبئی فرار ہو گیا تھا۔ سول سوسائٹی کے شدید احتجاج پر اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جانب سے ازخود نوٹس لیا گیا۔

سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے بعد ملزم کو بیرونِ ملک سے پاکستان لا کر گرفتار کیا گیا۔

ملزم کی واپسی پر مقدمہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت میں دائر ہوا جس میں سات جون 2013 کو شارخ جتوئی اور اس کے ساتھی سراج تالپور کو سزائے موت اوران کے سیکیورٹی گارڈ مرتضیٰ لاشاری اور سجاد تالپور کو عمر قید کی سزا سنائی تھی۔

عدالت نے مرکزی ملزم کے وکلا کی جانب سے اسے 18 سال سے کم عمر قرار دینے کی استدعا بھی مسترد کر دی تھی۔

اس دوران ملزمان اور مقتول کے خاندان کے درمیان صلح ہو گئی تھی۔

دونوں خاندانوں میں ہونے والی اس صلح کے تحت مقتول کے خاندان نے بھاری معاوضے کے عوض ملزمان کو معاف کر دیا تھا۔

عدالت نے دونوں خاندانوں کے صلح نامے کو قبول کرتے ہوئے بھی یہ قرار دیا تھا کہ قتل کی دفعات کے برعکس انسدادِ دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج مقدمات میں فریقین کے درمیان صلح نامہ قابل قبول نہیں ہوتا۔

سندھ ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کے بعد مئی 2019 میں ملزمان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا تھا۔ دو دیگر ملزمان سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی گئی تھی۔

ملزمان کے وکیل حق نواز تالپور نے اس وقت بتایا تھا کہ سندھ ہائی کورٹ کے حکم کو ملزمان کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جس پر اب فیصلہ آ گیا ہے۔

XS
SM
MD
LG