سندھ کا ایک جانا پہچانا شہر خیرپور۔۔ اور یہاں کی رس بھری منفرد ذائقے والی کھجوریں۔۔ کہتے ہیں جو’ ایک بار کھا لے۔۔ بار بار مانگے۔‘
شمالی سندھ کے اس ضلع میں کجھوروں کے باغات کو رومانوی حیثیت حاصل ہے۔ شام ڈھلے لوگ کھجوروں کے درخت کے نیچے بیٹھ کر غروپ ہوتے سورج کا نظارہ کرتے ہیں۔
یہاں موجود باغات اور درخت کھجوروں سے لدے پڑے ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں بسے سینکڑوں خاندان اپنے بچوں اور سامان سمیت کھجوروں کی کٹائی کے لئے خیرپور پہنچ گئے ہیں۔
کجھور کی کٹائی کا یہ سیزن کم سے کم تین ماہ چلتا ہے۔ یہاں کی کھجور کی جو سب سے مشہور قسم ہے وہ ’اصیل‘ کہلاتی ہے۔ یہ قسم سب سے زیادہ چھوارے بنانے کے کام آتی ہے۔ پچاسی فیصد اصیل اسی کام میں لی جاتی ہیں۔
’ڈیٹ پام ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ کے ایک اعلیٰ عہدیدار ڈاکٹر غلام سرور مارکھنڈ بتاتے ہیں ’اصیل‘ خشک ہوتی ہے اور اپنی خاصیت کے سبب بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش تک مشہور ہے۔ ان ممالک کو خیرپور کی یہی اصیل بڑے پیمانے پر برآمد کی جاتی ہے۔
کھجوروں کی پیکنگ کے لئے مقامی لکڑیوں سے خوبصورت کریٹ بنائے جاتے ہیں۔ یہ کام شروع ہوچکا ہے، جبکہ کٹائی رواں ہفتے شروع ہوگی۔
سندھ کے ایک نوجوان رحیم بخش ساگر نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ کٹائی کے وقت کا منظر بھی دیدنی ہوتا ہے۔ انتہائی گرمی کے باوجود کٹائی کے لئے سینکڑوں مرد، خواتین اور بچے اطرافی اضلاع سے خیرپور کے باغات کا رخ کرتے ہیں کیوں کہ کھجور اسی سیزن کا ’میوہ‘ ہے۔
ساگر مزید کہتے ہیں’’چلچلاتی دھوپ اور تپتے سورج کے باوجود درخت پر چڑھ کر کٹائی کرنے میں صرف مرد ہی پیش پیش نہیں ہوتے، بلکہ خواتین بھی مردوں سے بازی لے جانے پر کمر بستہ رہتی ہیں۔‘‘
کھجوروں کی کٹائی کے کام سے وابستہ ایک مزدور اللہ داد نے وی او اے کو بتایا کہ ’’کھجور کے اونچے اونچے درختوں پر چڑھ کر کلہاڑی کی مدد سے کھجوروں کے گچھے کاٹے جاتے ہیں جو بہت وزنی بھی ہوتے ہیں۔ انہیں درخت سے کاٹ کر نیچے گرایا جاتا ہے پھر ایک کے بعد دوسرے درخت پر چڑھ کر یہی کام کیا جاتا ہے۔ سخت گرمی میں سائے کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ یہ کام بہت محنت طلب ہے اور ماہر سے ماہرشخص بھی ایک دن میں زیادہ سے زیادہ 25 سے 30درختوں پر ہی چڑھ سکتا ہے۔ اس کام میں بہت خطرہ بھی ہے۔ درخت سے گرنے، کلہاڑی سے زخمی ہوجانے اور پیر چھل جانے کا خطرہ ہر وقت موجود رہتا ہے۔‘‘
کٹائی کا کام ٹھیکے پر بھی ہوتا ہے۔ اپنے کام کا 15سال کا تجربہ رکھنے والے ایک ٹھیکدار دین محمد کہتے ہیں ’’ایک درخت سے 60 کلو کھجی (یعنی خام کھجوریں) نکلتی ہیں جو بعد میں پروسیس کی جاتی ہیں۔ کٹائی کا کام فجر کے وقت شروع ہوتا اور سورج ڈھلے تک جاری رہتا ہے۔‘‘
اعداد و شمار
پاکستان ایگریکلچرل اینڈ ریسرچ کونسل کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، پاکستان بھر میں ڈھائی لاکھ ایکڑ زمین پر کھجور کی کاشت کی جاتی ہے جس میں سے ڈیڑھ لاکھ ایکڑ کاشت صوبہٴ سندھ میں ہوتی ہے۔ صوبے کی 90 فیصد کھجور وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کے اسی آبائی ضلع ’خیرپور‘ میں ہوتی ہے۔
خیرپور کے چار تعلقوں خیرپور، کوٹ ڈیجی، کنگری اور گمبٹ میں کھجور کی 80 فیصد کاشت جبکہ ٹھری میرواہ، فیض گنج اور سوبھو دیرو تعلقہ میں صرف 20 فیصد کھجور کاشت ہوتی ہے۔ صوبے میں کھجور کی 300 اقسام کاشت ہوتی ہیں-
کھجوروں کو کٹائی کے بعد دھوپ میں سکھایا جاتا ہے۔ پھر بھٹی میں پکا کر چھوارے تیار کئے جاتے ہیں۔ چھوارے پکانے والے کاریگر کو یومیہ 700 سے ایک ہزار روپے تک اجرت دی جاتی ہے جبکہ اس کی مدد کرنے والے مزدور یا ’ہیلپر‘ کو یومیہ ڈھائی سو روپے تک اجرت دی جاتی ہے۔
خیرپور کی کھجوروں کو لوگ تحفے کو طور پر بیرون ملک تک بھیجتے ہیں، جبکہ سیزن کے دوران ضلع میں ’کھجور میلا‘ لگتا ہے، جس میں بڑی تعداد میں لوگ شرکت کرتے اور کھجوریں خریدتے ہیں۔
پاکستان ایگریکلچرل اینڈ ریسرچ کونسل کا کہنا ہے کہ کھجوریں کاشت کرنے والے ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ پہلا نمبر ایران کا ہے۔ دنیا کی 60 فیصد کھجوریں یہیں کاشت کی جاتی ہیں، جبکہ دوسرا نمبر مصر کا ہے جہاں بارہ فیصد کھجوریں کاشت ہوتی ہیں۔ عراق میں گیارہ فیصد، سعودی عرب میں نو فیصدجبکہ دنیا کی مجموعی پیداوار کا سات فیصد حصہ پاکستان کا ہوتا ہے۔