پاکستان کی مختصر فلموں کو جس طرح دنیا بھر میں پذیرائی ملتی ہے اسی طرح عالمی سطح پر دستاویزی فلمیں بھی پاکستان کا نام نمایاں کر رہی ہیں۔
حال ہی میں پاکستان سے تعلق رکھنے والی فلم ساز صفیہ عثمانی کی پروڈیوز کردہ دستاویزی فلم سیریز 'فنڈا مینٹل۔ جینڈر جسٹس۔ نو ایکسیپشنز' ڈے ٹائم ایمی ایوارڈز میں ایک نہیں بلکہ دو کیٹیگریز میں نامزد ہوئی ہے۔
رواں ماہ یعنی جولائی کی 17 اور 18 تاریخ کو 'ڈے ٹائم ایمی ایوارڈ' کی تقریب میں فاتح کا اعلان ہونا ہے اور پاکستانی فلم ساز صفیہ عثمانی پُر امید ہیں کہ وہ دو میں سے کم از کم ایک کیٹیگری میں ایوارڈ حاصل کر لیں گی۔
صفیہ عثمانی کی بطور پروڈیوسر 'فنڈی مینٹل۔ جینڈر جسٹس۔ نو ایکسیپشنز' نامی دستاویزی فلم سیریز پانچ اقساط پر مشتمل ہے جس کی ہدایت کاری شرمین عبید چنائے نے دی ہے۔
اس دستاویزی فلم سیریز کی نامزدگی 'آؤٹ اسٹینڈنگ شارٹ فار ڈے ٹائم نان فکشن پروگرام' کی کیٹیگری میں ہوئی ہے جب کہ اسی کیٹیگری میں امریکی سٹ کام 'فرینڈز' سے شہرت پانے والی اداکارہ کورٹنی کوکس کی دستاویزی فلم 'نائین منتھس ود کورٹنی کوکس' بھی نامزد ہوئی ہے۔
دوسری جانب 'آؤٹ اسٹینڈنگ ڈائریکٹنگ ٹیم فار اے سنگل کیمرا ڈے ٹائم نان فکشن پروگرام' کی کیٹیگری میں صفیہ عثمانی کی فلم کا مقابلہ امریکہ کی سابق خاتون اوّل مشعل اوباما کی 'کری ایٹرزفور اے چینج آن گرلز ایجوکیشن ود مشعل اوباما' سے ہو گا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والی صفیہ عثمانی کا شمار ان چند خواتین فلم سازوں میں ہوتا ہے جنہوں نے باقاعدہ اس شعبے میں ڈگری حاصل کی ہے۔
صفیہ عثمانی سن 2013 میں فل برائٹ اسکالر شپ پر امریکہ گئی تھیں اور وہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد واپس پاکستان آ کر فلم میکنگ کی شروعات کی اور کچھ عرصہ ایک پروڈکشن ہاؤس میں کام کرنے کے بعد انہوں نے 2017 میں فلم ساز شرمین عبید چنائے کی 'ایس او سی فلمز' جوائن کی۔
رواں برس کے آغاز میں ہونے والے اکیڈمی ایوارڈز میں ان کی دستاویزی فلم 'اے لائف ٹو شارٹ' بھی نامزدگی کے لیے بھیجی گئی تھی لیکن مقتول ماڈل قندیل بلوچ کے قتل پر مبنی فلم شارٹ لسٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
’آسکرز کے لیے فلم کا بھیجا جانا ہی کسی ایوارڈ سے کم نہ تھا‘
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے صفیہ عثمانی کا کہنا تھا کہ اکیڈمی ایوارڈز کے لیے ان کی فلم کا بھیجا جانا ہی ان کے لیے کسی ایوارڈ سے کم نہیں۔ ان کے بقول دستاویزی فلم 'اے لائف ٹو شارٹ' میں ان کی رہنمائی شرمین عبید چنائے نے کی تھی اور وہ اس فلم کی پروڈیوسر بھی تھیں۔
صفیہ عثمانی کا مزید کہنا تھا کہ اس فلم کا آئیڈیا انہیں اسی وقت آ گیا تھا جب قندیل بلوچ کے قتل کی خبر آئی تھی اور یہ فلم ان حالات و واقعات کا جائزہ لیتی ہے جن کی وجہ سے ایک ابھرتی ہوئی سوشل میڈیا اسٹار اچانک قتل ہو گئی تھی۔
ڈے ٹائم ایمی ایوارڈز کیا ہیں؟
ویسے تو ایمی ایوارڈز کی کئی اقسام ہیں لیکن دو طرح کے ایمی ایوارڈز دنیا بھر میں زیادہ مقبول ہیں۔ ایک پرائم ٹائم ایوارڈز جس میں امریکی ٹی وی اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر نشر ہونے والے ٹی وی شوز اور دستاویزی فلمیں ایوارڈ کے لیے مدمقابل ہوتی ہیں۔
دوسری قسم 'ڈے ٹائم ایوارڈز' کی ہے جس میں ان ٹی وی شوز، پروگرامز اور دستاویزی فلموں کو نامزد کیا جاتا ہے جو پرائم ٹائم میں نشر نہیں ہوتے یا ان کا مواد پرائم ٹائم سے ہٹ کر ہوتا ہے۔
ڈے ٹائم ایمی ایوارڈز میں نامزد ہونے کے لیے ضروری ہے کہ وہ پروگرام رات دو بجے اور شام چھ بجے کے درمیان نشر ہوا ہو، جسے عام اصطلاح میں ڈے ٹائم کہتے ہیں۔ ان ایوارڈز میں شامل ہونے والے پراجیکٹس پرائم ٹائم ایمی ایوارڈز میں جگہ نہیں بناسکتے۔
اس کے علاوہ اسپورٹس، نیوز، ٹیکنالوجی اور ٹیکنیکل ایوارڈز کو پرائم ٹائم ایمی انجینئیرنگ ایوارڈز میں شامل کیا جاتا ہے۔
صفیہ عثمانی کہتی ہیں بطور ایک خاتون فلم ساز وہ ہر کہانی کو ایک عورت کی نظر سے دیکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دستاویزی فلم کی کہانیاں بھی عورتوں کے ہی مسائل کے گرد گھومتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان سے ایک ایسی سیریز نامزد ہوئی ہے جس کا تمام عملہ پاکستانی تھا اور اس کی کہانی بھی پاکستان کے بہت بڑے مسئلے کی عکاسی کرتی ہے۔
'فنڈی مینٹل۔ جینڈر جسٹس۔ نو ایکسیپشنز' سیریز کی خاص بات کیا ہے؟
صفیہ عثمانی کے ساتھ اس دستاویزی فلم سیریز کی پروڈکشن میں شاہ رخ وحید نے ان کا ساتھ دیا اور اس کی شوٹنگ پاکستان کے ساتھ ساتھ جارجیا، برازیل، کینیا اور امریکہ میں ہوئی ہے۔
'یوٹیوب اوریجنلز' کے بینر تلے ریلیز ہونے والی اس سیریز کو ’ایس او سی فلمز‘ نے گلوبل فنڈ فار ویمن کے اشتراک سے بنایا ہے۔
صفیہ عثمانی کے بقول اگر شرمین عبید چنائے جیسی ایوارڈ یافتہ ہدایت کارہ آپ کے ساتھ ہوں تو ویسے ہی پروڈیوسرز کو بہتر سے بہتر کام کرنے کا حوصلہ مل جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سیریز کی پہلی قسط میں پاکستان میں کم عمری میں شادی پر بات کی گئی ہے۔ صفیہ عثمانی کے مطابق یہ قسط کم عمری کی شادی کے پیچھے محرکات کی نشاندہی کی کوشش کرتی ہے۔
سیریز کی دیگر اقساط 'ڈیفینڈرز آف جسٹس' میں جہاں برازیلین خواتین کے مسائل کو سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے وہیں 'رائزنگ پاور' میں امریکہ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی پر بات کی گئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'گرلز ایٹ ڈی ہارٹ آف اٹ' لوگوں کو کینیا میں جنسی تعلیم کی آگاہی کے بارے میں بتاتی ہے جب کہ 'لیونگ آؤٹ لاؤڈ' جارجیا میں اقلیتوں کے حقوق اور ان کی زندگی سے متعلق ہے۔
فلم ساز صفیہ عثمانی نے بتایا کہ یہ ساری کہانیاں ہمارے ارد گرد کے لوگوں کی ہیں۔
ان کے بقول ہمارے پاس تو نیٹ فلکس یا ایمیزون جیسا پلیٹ فارم نہیں لیکن اس مشکل میں ہماری مدد یوٹیوب نے کی ہے جہاں ان فلموں کو مفت دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر انہیں ایوارڈ نہ بھی ملا تو وہ ہمت نہیں ہاریں گی کیوں کہ ان دستاویزی فلموں کے ذریعے وہ دنیا بھر میں ایسی کہانیاں سنا اور دکھا رہی ہیں جو ہمارے ارد گرد موجود ہیں۔