رسائی کے لنکس

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان قانون سازی پر کیا اختلافات ہیں؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں حکومت و اپوزیشن کے درمیان اختلافِ رائے کے باعث فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے تجویز کردہ ایکشن پلان پر عمل کرتے ہوئے احتسابی قوانین کی پارلیمنٹ سے منظوری تاخیر کا شکار ہو گئی ہے۔

اپوزیشن نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت ان بلز کے ذریعے دیگر مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے اور ان بلز میں کچھ غیر جمہوری دفعات شامل ہیں۔ جن کا ایف اے ٹی ایف کی شرائط سے کوئی واسطہ نہیں۔

حزبِ اختلاف نے حکومت سے اتفاق رائے نہ ہونے پر قانون سازی کے حوالے سے قائم پارلیمانی کمیٹی کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف سیاسی مقاصد کے لیے ملکی مفاد میں کی جانے والی قانون سازی کو متاثر کر رہی ہے۔

حکومتی رہنماؤں کی جانب سے ‘قومی احتساب آرڈیننس’ میں حزبِ اختلاف کی ترامیم کو ناقابلِ قبول قرار دینے کے بعد بات چیت میں تعطل پیدا ہوا اور اپوزیشن اراکین نے بھی ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانونی بل پر اعتراضات اٹھائے۔

حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانون سازی کی حمایت کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن اس کے لیے پیش کردہ بلز موجودہ حالت میں قابلِ قبول نہیں۔

حکومت اور اپوزیشن میں ڈیڈ لاک کی وجوہات

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیف وہپ عامر ڈوگر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگرچہ حزب اختلاف کے اراکین کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ تاہم ان کے ساتھ بیک ڈور رابطے جاری ہیں اور توقع ہے کہ ان اہم قانونی بلز پر اتفاق رائے کے لیے بات چیت کا آغاز دوبارہ ہو جائے گا۔

دوسری طرف وزیرِ قانون فروغ نسیم نے تصدیق کی کہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان سے متعلق قانون سازی پر حزبِ اختلاف کے ساتھ جاری بات چیت میں ڈیڈ لاک پیدا ہوا ہے ۔

صحافیوں سے گفتگو میں فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف کی نیب قوانین کے حوالے سے پیش کردہ ترامیم حکومت کے احتساب کے بیانیے کے خلاف ہیں۔

حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانون سازی کی حمایت کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن اس کے لیے پیش کردہ بلز موجودہ حالت میں قابلِ قبول نہیں۔ (فائل فوٹو)
حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانون سازی کی حمایت کرنے کو تیار ہیں۔ لیکن اس کے لیے پیش کردہ بلز موجودہ حالت میں قابلِ قبول نہیں۔ (فائل فوٹو)

فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اپوزیشن ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانونی بل کو پس پشت ڈال رہی ہے۔ اگر یہ قانون سازی اگست کے پہلے ہفتے تک نہ کی تو پاکستان ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ سے نہیں نکل سکے گا۔

وزیرِ قانون کا کہنا تھا کہ حکومت رواں سال 6 اگست سے پہلے یہ قانون قومی اسمبلی سے منظور کرائے گی۔

وزیرِ اعظم کے مشیر برائے داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر کہتے ہیں کہ احتساب کے عمل پر کوئی سودے بازی نہیں ہوگی جب کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ احتساب کے عمل کو بند کر دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ایف اے ٹی ایف کے ایکشن پلان کے حوالے سے قانون سازی کی حمایت کے بدلے حزبِ اختلاف کی جماعتیں جو ترامیم مانگ رہی ہیں۔ وہ تحریک انصاف کی حکومت نہیں دے سکتی۔

شہزاد اکبر نے اپوزیشن سے اپیل کی کہ وہ قومی سلامتی سے متعلق معاملات پر سودا بازی یا حکومت کو بلیک میل نہ کریں۔

اپوزیشن کے اعتراضات ہیں کیا؟

حزبِ اختلاف کا کہنا ہے کہ حکومت ایف اے ٹی ایف کے نام پر ایسی قانون سازی کرنا چاہتی ہے۔ جو جمہوری اصولوں اور انسانی حقوق کی روح سے مطابقت نہیں رکھتے۔

سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حکومت کا نیب بل کا مسودہ وہی تھا جو قانون پہلے سے رائج ہے۔ بلکہ اس کے اختیارات میں ایک اضافہ تھا جو کہ قانون شہادت کی نفی ہے۔

حزب اختلاف کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اپوزیشن نے حکومتی بل پر ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے احتساب کے حوالے سے ایک نیا قانون اتفاق رائے سے منظور کرنے کا کہا ہے۔

شہزاد اکبر انہوں کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف قانون سازی کی حمایت کے بدلے حزب اختلاف جماعتیں احتساب قوانین کے حوالے سے جو ترامیم مانگ رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)
شہزاد اکبر انہوں کا کہنا ہے کہ ایف اے ٹی ایف قانون سازی کی حمایت کے بدلے حزب اختلاف جماعتیں احتساب قوانین کے حوالے سے جو ترامیم مانگ رہی ہیں۔ (فائل فوٹو)

شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ حزبِ اختلاف نے حکومت سے کہا کہ نیب قوانین میں سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق ترامیم کی جانی چاہیے۔ لیکن حکومت کا جواب آیا ہے کہ ہماری تمام تجاویز قابلِ قبول نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی انسدادِ دہشت گردی بل کی ترامیم اس قدر خطرناک ہیں کہ اگر انہیں منظور کر لیا گیا تو ملک میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں رہے گی۔

قانون سازی کے لیے قائم پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں نیب ترمیمی بل کے علاوہ، دیگر چار بل بھی موجود ہیں۔

ان میں انسداد دہشت گردی کا ترمیمی بل، اقوامِ متحدہ کا قانون جس کا تعلق اقوامِ کی متحدہ سیکیورٹی کونسل سے ہے جب کہ تیسرا قانون باہمی قانونی معاونت سے متعلق ہے۔

حکومت کو پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں میں قلیل اکثریت حاصل ہے۔ تاہم ایوان بالا میں حزب اختلاف کی اکثریت ہے۔ جس کے باعث حکومت کے لیے حزب اختلاف کی رضامندی کے بغیر قانون سازی آسان نہیں ہے۔

XS
SM
MD
LG