اقوام متحدہ کے موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق پیرو میں ہونے والے اجلاس میں شریک رکن ممالک نے ایک ابتدائی سمجھوتے پر اتفاق کر لیا ہے جو آئندہ سال موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق پیرس میں ہونے والے عالمی معاہدے کی بنیاد بنے گا۔
دارالحکومت لیما کا معاہدہ ترقی پذیر ممالک کی طرف سے ابتدائی مسودے کے مسترد کرنے کے چند گھنٹوں کے بعد طے پایا جو ترقی یافتہ ممالک پر گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
حتمی مسودے میں بظاہر ان تحفظات کو کم کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ تمام ملکوں کی گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کی "مشترکہ اور متفرق ذمہ داریاں" ہیں۔ تمام ممالک آئندہ دسمبر میں پیرس میں ہونے والے سربراہی اجلاس سے پہلے گلوبل وارمنگ سے نمٹنے کے لیے اپنے قومی منصوبے غور و غوض کے لیے پیش کریں گے۔
اجلاس کے شرکا کے درمیان سمجھوتے کے حتمی مسودے کے متعلق اختلافات جمعہ تک موجود رہے جس دن اس اجلاس کو ختم ہو جانا تھا۔
پیرو کے ماحولیاتی امور کے وزیر مینوئل پلگر ویدال نے کہا کہ "مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ تمام مسودوں کی طرح یہ بھی جامع (مسودہ) نہیں ہے تاہم اس میں تمام فریقوں کے موقف کو شامل کیا گیا ہے۔"
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی تبدیلیوں سے متعلق نمائندے ٹاڈ اسٹرن نے متنبہ کیا کہ کاربن کے اخراج کے معیار کے بارے میں فوری سمجھوتے پر نہ پہنچنے کی صورت میں آئندہ دسمبر میں پیرس میں ہونے والے معاہدے کے امکانات کم ہو جائیں گے۔
اسٹرن نے اجلاس کے تمام مندوبین پر ایک مفاہمتی مسودے کو قبول کرنے پر زور دیا اور متنبہ کیا کہ اس میں ناکامی کی صورت میں اقوام متحدہ کی گلوبل وارمنگ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو مجموعی طور پر نقصان پہنچ سکتا ہے۔
آئندہ سال پیرس میں ہونے والا معاہدہ کیوٹو معاہدے کی جگہ لے گا جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج سے متعلق ہے اور جس کی مدت 2012ء میں ختم ہو گئی تھی۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو قرار دیا جاتا ہے۔ سائنسدانوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر ان گیسوں کے اخراج کو کم نہ کیا گیا تو شدید خشک سالی، سیلاب اور سمندروں میں طغیانی کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔