پاکستان کی حکومت کی جانب سے پڑوسی ملک بھارت سے سبزیوں بالخصوص ٹماٹر اور پیاز منگوانے کی تجویز کے بعد مقامی آڑھتی کشمکش کا شکار ہونے لگے ہیں۔ اُنہوں نے افغانستان اور ایران سے آنے والی سبزیوں کے آرڈرز کو موخر کرنا شروع کر دیا ہے، جس سے ملک بھر کی سبزی اور پھلوں کی منڈیوں میں سبزیاں ناپید ہونا شروع ہو گئیں ہیں۔
پاکستان میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باعث پیدا ہونے والی صورتحال کے اثرات سبزی منڈیوں تک پہنچنا شروع ہو گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ملک بھر کی سبزی منڈیوں میں مختلف سبزیوں کی سپلائی 75 فیصد تک متاثر ہو چکی ہے۔ ماہرین نے سیلاب کے باعث ملک میں غذائی بحران پیدا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔
مبصرین کی رائے
مبصرین کی رائے میں پاکستان کو طویل مدتی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ ایسے فیصلے جو حالات وواقعات کی درست نشاندہی کرتے ہوں۔
بھارت میں پاکستان کے سابق سفیر عبدالباسط سمجھتے ہیں کہ جہاں تک سبزیوں کی بات ہے پاکستان کے وزیرِخزانہ نے بھارت کے ساتھ سبزیوں کی تجارت کی بات تو کی ہے لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ آیا یہ اُن کی ذاتی رائے ہے یا حکومت بھی واقعی ایسا سوچ رہی ہے۔ جس کا پس منظر سب جانتے ہیں کہ کیا ہے۔ اس کا تعلق بھارت کی کشمیر سے متعلق پالیسی سے بھی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں سیلاب نے بہت تباہی مچائی ہے، لیکن چیزوں کو مجموعی طور پر دیکھنا چاہیے کہ اِس سے پاکستان کی کشمیر پالیسی پر کیا فر ق پڑے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ چاہتا ہے کہ پاکستان کی بھارت کے ساتھ تجارت بحال ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ فیصلے تو حکومت کو کرنے ہیں، لیکن چیزوں کو اُن کے درست تناظر میں رکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں، تکنیکی بنیادوں پر فیصلے نہ کیے جائیں۔ یہ ایک اسٹریجک فیصلہ ہے اور اِسی تناظر میں اِس کو دیکھنا چاہیے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت کی بحالی کے حوالے سے سابق سفیر عبدالباسط کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت میں کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے تجویز دی تھی کہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی تجارت ہونی چاہیے۔ لیکن اُس وقت کے وزیراعظم نے واضح کہہ دیا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔
اپنی گفتگو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیلاب سے پہلے بھی موجودہ حکومت کہتی رہی ہے کہ پاکستان کو بھارت سے تجارت شروع کرنی چاہیے۔ اُن کی رائے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کا قدرے جھکاو تو ہے کہ پاکستان کی بھارت کے ساتھ تجارت شروع ہونی چاہیے۔
عبدالباسط کے بقول اگر سبزیوں کی تجارت شروع ہو جاتی ہے تو ممکنہ طور پر اگلا قدم یہ ہو گا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر کیا جائے۔ دونوں ملک اپنے اپنے ہائی کمیشن ایک دوسرے کے ملک بھجوا دیں اور مزید سلسلہ چل نکلے گا۔
بھارتی وزیراعظم کا پیغام
دوسری جانب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستان میں سیلاب سے جاں بحق افراد کے لواحقین سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی دیکھ کر دکھ ہوا ہے۔
اپنے پیغام میں اُنہوں نے مزید لکھا کہ وہ متاثرین کے اہلِ خانہ، زخمیوں اور قدرتی آفات سے متاثر ہونے والوں کے ساتھ افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نے اُمید ظاہر کی کہ جلد معمول کی زندگی اور بحالی شروع ہو جائے گی۔
پس منظر
یاد رہے بھارت کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کر دیا تھا۔ جس کے بعد 9 اگست 2019 کو پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے بھارت کے اِس اقدام سے دہلی کے ساتھ دوطرفہ تجارت کو معطل کر دیا تھا۔
امریکی تھنک ٹینک کی رائے
امریکی تھنک ٹینک دی ولسن سینٹر کے سینئر ایسوسی ایٹ مائیکل کوگلمین نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی ممکنہ تجارت کے بارے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئیٹر پر اپنے ایک پیغام میں کہا ہے کہ دو اہم پیش رفت ایسی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ اسلام آباد نے اعلان کیا کہ وہ بھارت کے ساتھ تجارت دوبارہ شروع کرنا چاہتا ہے، اور یہ خبر کہ پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر بات چیت دوبارہ شروع کریں گے۔ جو پاکستان کی اقتصادیات اور توانائی کے مفادات کے لیے ممکنہ فروغ اور علاقائی انضمام کے لیے بہتر رہے گا۔
اپنے پیغام میں اُنہوں نے مزید کہا بھارت کے ساتھ تجارت کا فیصلہ کوئی بڑے تعجب کی بات نہیں ہے۔ حکومت نے اس خواہش کا اشارہ پہلے دیا تھا۔ حکمراں جماعت پی ایم ایل این کے پنجاب میں کاروبار سے منسلک لوگ بھارت کے ساتھ تجارت کی حمایت کرتے ہیں۔ شریف خاندان کے سعودیوں کے ساتھ قریبی تعلقات کے پیش نظر ایران کے ساتھ مذاکرات زیادہ حیران کن ہیں۔
محکمہ زراعت کی رائے
محکمہ زراعت پنجاب کے زیر اثر مارکیٹ کمیٹی لاہور کے سیکرٹری شہزاد چیمہ سمجھتے ہیں کہ صوبے کے بڑے شہروں لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، ساہیوال، راولپنڈی، سرگودھا، بہاولپور اور رحیم یار ٰخان میں سبزیوں اور خاص طور پر ٹماٹر اور پیاز کی سپلائی بری طرح متاثر ہے۔ جس کے باعث تمام سبزیوں کی قیمتوں میں آئندہ ماہ تک مزید اضافے کی توقع ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ وفاقی حکومت کا فیصلہ ہو گا کہ بھارت کے ساتھ تجارت بحال ہونی چاہیے یا نہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو یہ وقتی طور پر درست فیصلہ ہو گا لیکن یہ فیصلہ طویل مدتی نہیں ہونا چاہیے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر یہ فیصلہ طویل مدتی ہو جاتا ہے تو یہ پاکستان کے کسانوں کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ وقتی طور پر اِس فیصلے کا پاکستان کو فائدہ ہو گا۔ سبزیوں کی قیمتیں کم از کم پچاس فیصد تک کم ہوجايیں گی۔ لیکن اگر یہ طویل مدتی پالیسی ہوتی ہے تو پاکستان کا زمیندار اور کسان متاثر ہو گا۔ اسے اُس کی اجناس کی صحیح قیمت وصول نہیں ہو گی۔ جس کا برا اثر پاکستان کی زراعت پر بھی محسوس ہو گا۔
سبزی منڈیوں کی صورتحال
صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں واقع صوبے کی سب سے بڑی منڈی سبزی منڈی بادامی باغ لاہور جہاں ملک بھر سے سبزیاں اور پھل آتے ہیں وہاں کے تاجر پریشانی کا شکار ہیں
آل پنجاب فریش فروٹس اینڈ ویجیٹیبل ایسوسی ایشن کے صدر میاں فیصل مجید بتاتے ہیں کہ پاکستان میں سیلابی صورتحال کے باعث صوبہ سندھ کی ٹماٹر کی فصل اور صوبہ بلوچستان میں پیاز کی فصل بری طرح خراب ہو گئی ہے۔ جس کے باعث افغانستان سے ٹماٹر آ رہے ہیں۔ اِسی طرح ایران سے پیاز آ رہی ہے۔
اُن کے مطابق پاکستان میں ایرانی پیاز کی طلب بڑھ جانے سے وہاں کی حکومت نے پیاز پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں سیلابی صورتحال کے باعث ایران سے براستہ بلوچستان پاکستان کے مختلف علاقوں تک آنے والے راستے سیلاب کی وجہ سے ناکارہ ہو گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے پیاز کے نرخ بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اِسی طرح جو ٹماٹر افغانستان سے آ رہے تھے، وہ بھی راستے بند ہو نے کے سبب پہنچ نہیں پا رہے ہیں۔ جس کے باعث سپلائی بری طرح متاثر ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیلاب سے قبل پاکستان بھر کی منڈیوں میں بلوچستان اور خصوصاً ڈیرہ مراد جمالی کا پیاز وافر مقدار میں دستیاب تھا۔
سیکرٹری لاہور مارکیٹ کمیٹی شہزاد چیمہ کے مطابق صوبےبھر میں تمام سبزی منڈیوں میں تمام اقسام کی سبزیوں کی سپلائی 75 فیصد تک متاثر ہوئی ہے۔ جسے فوری طور پر بہتر نہ کیا گیا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔
بھارت سے سبزیاں منگانے کے سوال پر میاں فیصل مجید نے کہا کہ وہاں سے واہگہ کے راستے سبزیاں پاکستان آ سکتی ہیں۔ جس کے اخراجات کم آئیں گے اور وقت بھی کم لگے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ وقتی طور پر ایسا فیصلہ درست رہے گا، لیکن یہ پالیسی طویل مدت کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِس وقت پاکستان میں سیلاب کے باعث جنگی قسم کی صورتحال ہے۔ جس کے باعث بھارت سے سبزیاں منگانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
آڑھتیوں کا نقطہ نظر
لاہور کی سبزی منڈی کے آڑھتی بتاتے ہیں کہ اگر صرف لاہور کی بات کی جائے تو پیاز کے حوالے سے لاہور کی ضرورت سو ٹرک روزانہ ہیں، جبکہ سپلائی اَب دس ٹرک پر آ گئی ہے۔ ایک ٹرک کا وزن بارہ ہزار کلو ہے۔ اِسی طرح ٹماٹر کی بات کی جائے تو ستر سے اسی ٹرک روزانہ کی ضرورت ہے اور پہنچ دس ٹرک رہے ہیں۔
ان کے مطابق کسی بھی سبزی کا کابل سے ٹرک لاہور دو دِنوں جبکہ ایران سے تین دِنوں میں پہنچتا ہے۔ اگر بھارت سے تجارت شروع ہو جاتی ہے تو کوئی بھی ٹرک ایک دِن میں پہنچ جائے گا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومتی تجویز کے بعد وہ کشمکش کا شکار ہیں اور اُنہوں نے افغانستان اور ایران کے ساتھ اپنے سودوں کو موخرکرنا شروع کر دیا ہے۔ جس کی وجہ وہ مہنگی قیمت بتاتے ہیں۔ اُن کے خیال میں اگر یہی خریداری بھارت کے ساتھ ہو گی تو افغانستان اور ایران کی نسبت سستے داموں ہو گی۔
آڑھتیوں کے خیال میں حکومت کی جانب سے واضح پالیسی سامنے آنی چاہیے اور باقاعدہ ایک تاریخ کا اعلان ہونا چاہیے کہ فلاں تاریخ سے بھارت کے ساتھ تجارت شروع ہو سکتی ہے۔ جس میں کم از کم پندرہ سےبیس دِنوں کا وقت ہو۔