رسائی کے لنکس

مراکش کشتی حادثہ: 'ڈنکی لگانے کا دوبارہ کہا جائے تو ملک میں رہنے کو ترجیح دوں گا'


  • انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے سدباب کے لیے وزیرِ اعظم نے خصوصی ٹاسک فورس قائم کردی ہے۔
  • یورپ جانے کے خواہش مند پاکستانیوں کی کشتی کو پیش آنے والے حالیہ واقعے میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 تارکینِ وطن ہلاک ہوگئے تھے۔
  • ـکشتی میں ہمارا سفر موت کا سفر تھا، کس نے زندہ بچنا ہے اور کس نے مر جانا ہے یہ کسی کو علم نہیں تھا، عامر علی
  • ایجنٹ نے جولائی 2024 میں مجھے اور چار دیگر لڑکوں کو پاکستان سے موریطانیہ بھجوایا جہاں ہمیں سیف ہاؤس میں رکھا گیا، عامر علی
  • سیف ہاؤس میں صرف ایک وقت کا کھانا دیا جاتا تھا اور گھر سے باہر بھی نکلنے کی اجازت نہیں تھی کیوں کہ غیر قانونی قیام کی وجہ سے پکڑے جانے کا خطرہ بھی تھا، عامر علی

گوجرانوالہ _ یورپ جانے کی کوشش کے دوران کشتی اُلٹنے اور اس کے نتیجے میں پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ غیر قانونی طریقے سے نقل مکانی کو روکنے کے لیے انسانی اسمگلرز کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔

حالیہ واقعے میں 16 جنوری کو موریطانیہ سے اسپین جانے والی کشتی ڈوبنے سے 44 پاکستانیوں سمیت 50 تارکینِ وطن ہلاک ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے بھی مختلف واقعات میں درجنوں پاکستانی شہری موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

بعض متاثرین کا دعویٰ ہے کہ بعض واقعات میں بحری قزاقوں اور انسانی اسمگلرز نے کھلے سمندر میں لوگوں کا قتلِ عام بھی کیاہے۔

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے سدباب کے لیے وزیرِ اعظم نے خصوصی ٹاسک فورس قائم کردی ہے، جس کی سربراہی وہ خود کریں گے۔

گوجرانوالہ کے گاؤں کوٹلی دیانت رائے کے رہائشی محمد خالد کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے دو بیٹے اسپین پہنچانے کے لیے ایجنٹ کو ایک کروڑ 16 لاکھ روپے دیے تھے۔

محمد خالد نے بتایا کہ دو جنوری کو روانہ ہونے والی کشتی کو پانچ جنوری کو روکا گیا تھا اور اگلے روز یعنی چھ جنوری کو اس کشتی میں قتل و غارت شروع کی گئی تھی۔

اُن کے بقول، "میرا بیٹا ہارون پہلے ہی روز ہونے والی خون ریزی میں قتل کرکے سمندر میں پھینک دیا گیا تھا۔"

"مراکش کے قریب جہاں کھلے سمندر میں لوگوں کو قتل کیا گیا، اس جگہ کی حدود کا تعین کرنا اگرچہ ایک مشکل کام ہے لیکن عالمی عدالتِ انصاف ہی وہ واحد فورم ہے جہاں ورثا رابطہ قائم کریں تو انہیں انصاف مل سکتا ہے۔"

یہ کہنا ہے انسانی اسمگلنگ قوانین کی ماہر شکیلہ سلیم رانا ایڈووکیٹ کا، جنہوں نے مقتولین کے ورثا کو مشورہ دیا ہے کہ اگر وہ عالمی عدالت انصاف میں مشترکہ پٹیشن دائر کریں تو ان کی شنوائی ہو سکتی ہے۔

شکیلہ سلیم رانا ایڈووکیٹ کہتی ہیں کہ یہ زیادہ مشکل کام نہیں، لیکن ورثا کو دستیاب ثبوتوں کے ساتھ پٹیشن تیار کرنا ہو گی اور اسے آن لائن فائل کرنا ہوگا۔

اُن کا کہنا تھا کہ جتنے زیادہ متاثرین اس پٹیشن میں شامل ہوں گے اتنا ہی اس کے قابلِ عمل ہونے کا امکان ہے۔ اگر ان کی پٹیشن پرکارروائی شروع ہو جاتی ہے تو بحری قزاقوں یا انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائی کروانا عالمی عدالت انصاف کا کام ہوگا۔

'ابھی تک یقین نہیں آ رہا کہ زندہ بچ گیا ہوں'

" ـکشتی میں ہمارا سفر موت کا سفر تھا، کس نے زندہ بچنا ہے اور کس نے مر جانا ہے یہ کسی کو علم نہیں تھا، لگتا تھا کہ سب ہی مر جائیں گے اور سفر پر روانگی سے پہلے اپنے پیاروں سے جو ملاقاتیں ہوئی تھیں وہ ہماری آخری ملاقاتیں رہی تھیں۔ اتنے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھ کر ابھی تک یہ یقین نہیں آ رہا کہ میں زندہ بچ گیا ہوں۔"

یہ کہنا ہے گوجرانوالہ کے علاقے فیروز والا کے رہائشی 22 سالہ عامرعلی کا، جو موریطانیہ سے غیر قانونی طریقے اسپین جانے والوں کی اس کشتی میں سوار تھے جسے حادثہ پیش آیا تھا ۔ حادثے کے نتیجے میں 44 پاکستانیوں سمیت 50 تارکینِ وطن ہلاک ہوگئے تھے۔

86 تارکین وطن کی کشتی دو جنوری کو موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی اور کشتی میں کل 66 پاکستانی سوار تھے۔ حادثے میں 36 افراد کو بچالیا گیا جن میں عامرعلی بھی شامل ہیں۔ ان کا نام وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ 22 زندہ بچنے والے پاکستانیوں کی فہرست میں بھی شامل ہے۔

مراکشی حکام نے اس واقعے میں جن 36 افراد کو ریسکیو کیا ہے انہیں بندرگاہ دخلہ کے قریب ایک خیمے میں رکھا ہے۔

عامر علی نے اپنے گھر فون کرکے اہلِ خانہ کو اس حادثے کی تفصیلات بتائیں۔

" ایجنٹ نے جولائی 2024 میں مجھے اور چار دیگر لڑکوں کو پاکستان سے موریطانیہ بھجوایا جہاں ہمیں سیف ہاؤس میں رکھا گیا، چھ ماہ تک ہمیں یہی کہا جاتا رہا کہ آپ لوگوں کی کشتی کے لیے بکنگ کروا دی گئی ہے۔ ابھی کشتی میں رش چل رہا ہے جب آپ لوگوں کی باری آجائے گی توبھجوا دیں گے۔"

عامر علی بتاتے ہیں کہ سیف ہاؤس میں انہیں صرف ایک وقت کا کھانا دیا جاتا تھا اور گھر سے باہر بھی نکلنے کی اجازت نہیں تھی کیوں کہ غیر قانونی قیام کی وجہ سے پکڑے جانے کا خطرہ بھی تھا۔

اُن کا کہنا تھا "دو جنوری کو وہ وقت بھی آ گیا جب ہمیں کشتی میں سوار کروایا گیا۔ اس کشتی میں کل 86 لوگ تھے جن میں زیادہ تر پاکستانی تھے۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ کو اسپین کے جزیرے پر اُتارا جائے گا اور یہ سفر چار سے پانچ دن کا ہو گا۔

" کشتی کا سفر تین روز تک تو ٹھیک رہا پھر کشتی کا انجن خراب ہوگیا یا پھر اسے دانستہ روکا گیا، جب انجن بند ہو گیا تو سب لوگ پریشان ہوگئے کہ اب کیا کریں کیوں کہ کشتی کو شاید غلط سمت لے جایا گیا تھا اور جہاں ہماری کشتی پھنسی ہوئی تھی وہاں سے بحری جہاز بھی نہیں گزر رہے تھے۔"

عامر علی بتاتے ہیں کہ کشتی والا یہی بتا رہا تھا کہ انجن میں مسئلہ ہوا ہے اور اس کے ساتھی آ رہے ہیں لیکن کچھ مسافروں کا کہنا تھا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے اس نے جان بوجھ کر انجن بند کیا ہے ۔

اگلے روز یعنی چھ جنوری کو کچھ انسانی اسمگلر وہاں آئے اور انہوں نے ہماری کشتی سے کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ لائی گئی دوسری کشتی میں سوار کیا۔

عامر کے بقول "یہ سفاک انسانی اسمگلرز تھے جنہوں نے سب مسافروں سے ان کا مال اسباب چھین لیا اور ہماری کشتی چلانے والے کو بھی اپنے ساتھ لے گئے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ بھی ان کے ساتھ ملا ہوا تھا جن لوگوں نے احتجاج کیا ان کو بےدردی سے مارا پیٹا گیا۔ پھر یہ معمول بن گیا کہ وہ لوگ روزانہ آتے ، کچھ لوگوں کو ساتھ لے جاتے اور آواز اٹھانے والوں کو مار پیٹ کرکے سمندر میں پھینک دیتے، قتل و غارت کا یہ سلسلہ 10 روز تک جاری رہا۔"

عامر علی نے بتایا کہ کشتی میں سوار تمام افراد زندگی کی امیدیں ختم کر بیٹھے تھے۔ پانچ جنوری سے 15 جنوری تک کے 10 روز کسی قیامت کی طرح تھے، ہم نے زندہ انسانوں کو لاشیں بنتے دیکھا۔

"سب لوگ بھوک پیاس سے نڈھال ہوچکے تھے کہ 15 جنوری کو ہمیں مراکش کی ایک ٹیم نے وہاں سے ریسکیو کرلیا اور قریبی دخلہ کے کیمپ میں پہنچایا۔"

'بھائی کا نام فہرست میں شامل تھا لیکن شناختی کارڈ نمبر مختلف تھا'

جو لوگ زندہ نہیں بچے ان میں منڈی بہاؤ الدین کے نواحی گاؤں کھٹیالہ شیخاں کے 23 سالہ علی حسن بھی شامل ہیں۔ علی حسن کے ورثا کو اس کی ہلاکت کی اطلاع کشتی میں سوار علی حسن کے دوست عامر نے فون کرکے دے دی ہے جوکہ بندرگاہ دخلہ کے قریب خیمے میں موجود ہیں۔

علی حسن نے دو جنوری کو اپنے والد سے آخری بار رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ "ابو جان، اب ہم بوٹ میں بیٹھ گئے ہمارے لیے دعا کرنا ۔" اس کے بعد گھر والوں کا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا اور کشتی حادثے کی اطلاع آ گئی جس پر بوڑھے والدین اور بھائی بہن پریشان ہوگئے۔

انیس جنوری کو پاکستان کی وزارتِ خاجہ نے زندہ بچنے والے 21 پاکستانیوں کی پہلی فہرست جاری کی جس میں علی حسن کا نام بھی شامل تھا۔لیکن بعد ازاں جب ان کے بھائی نے لسٹ میں علی حسن کا شناختی کارڈ نمبر اور پاسپورٹ نمبر چیک کیا تو یہ خبر اہل خانہ پر بجلی بن کر گری کہ نام تو وہی تھا لیکن شناختی کارڈ نمبر اور پاسپورٹ نمبر مختلف تھے۔

کچھ ہی گھنٹوں بعد علی حسن کے ساتھ سفر کرنے والے اس کے دوست کی کال آ گئی جس نے بتایا کہ وہ خود تو خیریت سے کیمپ میں پہنچ گیا ہے لیکن علی حسن نہیں پہنچ سکا اور انسانی اسمگلروں نے اس پر دو روز تک تشدد کرنے کے بعد اسے سمندر میں پھینک دیا تھا۔

علی حسن کے والد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "میرے بیٹے کو یورپ جانے کا شوق نہیں بلکہ جنون تھا، وہ کہتا تھا کہ ابو میں یورپ جا کر دن رات محنت کروں گا تو آپ کی غربت دور ہو گی ۔ ان کے بقول، پاکستان سے موریطانیہ روانگی کے وقت وہ پرجوش تھا اور اس نے ائیرپورٹ پر اپنے بھائی کے ساتھ الوداعی ملاقات کی ویڈیو بھی بنوائی۔"

اُن کا کہنا تھا کہ "ہم نے اپنی بھینسیں بیچ دیں، ماں نے جو زیور سنبھال کر رکھے تھے انہیں بیچ دیا اور ایجنٹ کو 40 لاکھ پورے دیے۔ بیٹا کہتا تھا کہ جب میں یورپ پہنچ جاؤؓں گا توآپ کو اتنے پیسے بھیجوں گا کہ ایک سال میں آپ یہ ساری بھینسیں اور زیورات دوبارہ خرید سکو گے۔"

والد کہتے ہیں کہ اگرچہ ہمارا بیٹا زندہ نہیں بچ سکا، اور میں یہی کہتا ہوں کہ ایسے کوئی ملک سے باہر نہ جائے۔ یہ ایجنٹ سب آپس میں ملے ہوئے ہیں اور ان کو صرف پیسوں سے پیار ہے لڑکوں کی زندگیاں عزیز نہیں۔

ایجنٹوں کی لڑائی

اس واقعے میں گجرات کے جوڑا کرناناں کے غلام مصطفیٰ کا نام بھی زندہ بچ جانے والوں کی لسٹ میں شامل ہے۔ جن کی حالت اس وقت خراب ہے اور انہیں کیمپ سے ملحقہ اسپتال میں داخل کروایا گیا ہے۔

غلام مصطفیٰ کے ساتھ جانے والے ان کے ایک دوست نے اہلِ خانہ سے فون پر ان کی بات کروائی جہے ۔ غلام مصطفیٰ نے نے بتایا کہ انہیں انفیکشن ہوگیا ہے جس کا علاج کیا جا رہا ہے۔

غلام مصطفیٰ نے اپنے اہلِ خانہ کو کشتی کے سفر کی روداد بتائی اور کہا کہ وہ انسانی اسمگلرز کے چنگل میں پھنس چکے تھے جو کہ ان پر تشدد کرتے اورلڑکوں کو مارپیٹ کے بعد یوں سمندر میں پھینک دیتے جیسے وہ کوئی انسان نہیں۔

غلام مصطفیٰ کا کہنا تھا کہ "اگر کوئی دبک کر بیٹھا رہے اس کو صرف مارا پیٹا جاتا اور اگر کوئی مزاحمت کرتا تو اس کو آہنی ہتھیاروں سے مارپیٹ کرکے سمندر میں پھینک دیا جاتا۔ حقیقت یہی ہے کہ کشتی رکنے کے تین چار روز بعد بھوک پیاس سے ہمارا برا حال ہونے لگا تھا اور سب کو یقینی موت نظر آنے لگی تھی۔"

ان کے بقول، "انسانی اسمگلروں کی کشتی آنے پر سب لوگ اس طرح ڈر کر کونوں میں بیٹھ جاتے تھے جیسے مرغیوں کے ڈربے میں مرغیاں ذبح ہونے کے ڈر سے ادھر ادھر دبک جاتی ہیں۔"

سینیگال سے موریطانیہ اور پھر اسپین ، نیا روٹ

حالیہ کشتی حادثات کے بعد ڈنکی لگانے کا ایک نیا روٹ سامنے آیا ہے جس کے مطابق تارکینِ وطن کو پہلے پاکستان، سعودی عرب یا دبئی سے سینیگال لے جایا جاتا ہے جہاں سے افریقی ملک موریطانیہ اور پھر کشتی کے ذریعے اسپین لے جایا جاتا ہے۔

تارکین وطن کے حقوق کی تنظیم واکنگ بارڈرز نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ جزائر کو عبور کرنے کی کوشش میں سال 2024 میں 9757 افراد ہلاک یا لاپتا ہو چکے ہیں ۔ حالیہ حادثہ جس روٹ پر پیش آیا وہ دنیا کا سب سے مہلک راستہ ہے جہاں انسانی اسمگلرز قتل و غارت کے حوالے سے بدنام ہیں۔

یہ جزائر افریقہ کے قریب ترین مقام سے تقریباً 65 میل (105 کلومیٹر) کے فاصلے پر ہیں، لیکن سیکیورٹی فورسز سے بچنے کے لیے بہت سے تارکین وطن طویل سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ہفتہ بھی لگ سکتا ہے، تارکین وطن کی اکثریت پچھلے سال موریطانیہ سے روانہ ہوئی تھی جو قریب ترین کینری جزیرے ایل ہیرو سے کم از کم 473 میل (762 کلومیٹر) دور ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ کا مؤقف ہے کہ وہ زندہ بچنے والے افراد اور مرنے والوں کے لواحقین سے رابطے میں ہیں اور ایک اعلیٰ سطح کی تحقیقاتی ٹیم مراکش روانہ کردی ہے جوکہ وہاں چھان بین کررہی ہے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے مراکش کشتی حادثے کے بعد اس میں ملوث انسانی اسمگلروں کے خلاف مختلف شہروں میں کارروائیاں شروع کردی ہیں۔

ایف آئی اے نے ایک خاتون سمیت متعدد انسانی اسمگلروں اور ان کے سہولت کاروں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔

ایف آئی اے کے ریجنل ڈائریکٹر عبدالقادر قمر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ زندہ بچنے والے نوجوان علی حسن کو بیرون ملک بھجوانے کےلیے اہلِ خانہ سے 53 لاکھ 50 ہزار روپے ہتھیانے والے ملزم محمد انصر کو گرفتار کرلیا ہے اور اس گروہ میں شامل دیگر ملزمان کی گرفتاری کےلیے چھاپہ مار کارروائیاں کی جارہی ہیں۔

گوجرانوالہ کے زندہ بچ جانے والے عامر علی کہتے ہیں کہ اگر اسے دوبارہ کبھی کہا جائے کہ ڈنکی لگاؤ تو وہ پاکستان میں رہنے کو ترجیح دیں گے۔ان کے بقول، ڈنکی لگانا خودکشی کرنے کے مترادف ہے، جن لوگوں نے کھلے سمندر میں پچاس اموات کا سفر دیکھا ہے وہ ابھی تک اس خوف سے باہر نہیں نکل سکے۔

فورم

XS
SM
MD
LG