پاکستان کی کرکٹ میں ایک مرتبہ پھر مقامی سطح پر کرکٹ کے فروغ کے طریقۂ کار پر بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ وزیرِ اعظم عمران خان نے موجودہ اور سابق کھلاڑیوں سے ملاقات کے بعد ایک بار پھر ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کو بحال کرنے کے مطالبات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بڑے فیصلے کرتے وقت مشکلات آتی ہیں۔
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان اور پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن ان چیف وزیر اعظم عمران خان ملک میں ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی عرصہ دراز سے مخالفت کرتے ہوئے آسٹریلیا کی طرز پر علاقائی ٹیموں کی تشکیل پر زور دیتے رہے ہیں۔
گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان میں لگ بھگ 50 سال سے جاری اداروں (ڈیپارٹمنٹل) کی کرکٹ کو ختم کر کے علاقائی سطح پر چھ ریجنل ایسوسی ایشنز قائم کر دی گئی تھیں۔
عمران خان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں کی چھ مضبوط ٹیموں کے درمیان سخت مقابلوں کے بعد ہی بہترین ٹیلنٹ سامنے آ سکتا ہے۔
نئے نظام کے نفاذ کے بعد پاکستان کے سرکاری اور نجی اداروں کی ٹیمیں ختم کر دی گئی ہیں جو کھلاڑیوں کو مستقل ملازمت بھی دیتی تھیں۔
کرکٹ ویب سائٹ 'کرک انفو' کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ختم ہونے سے لگ بھگ 400 کھلاڑیوں کی ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں جو پاکستان کے مختلف سرکاری اور نجی اداروں کی جانب سے کھیلتے تھے۔
بدھ کو سابق کپتان وسیم اکرم، مصباح الحق، اظہر علی اور محمد حفیظ نے عمران خان کو دوبارہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی بحالی کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی، تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے۔
خیال رہے کہ مصباح الحق، محمد حفیظ اور اظہر علی سوئی ناردن گیس کارپوریشن کی جانب سے کھیلتے رہے ہیں اور ان کے پاس مستقل ملازمت بھی ہے۔
وسیم اکرم پاکستان کی قومی ایئر لائن پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) کی جانب سے کھیلتے رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں حبیب بینک، پاکستان واپڈا، یونائٹیڈ بینک اور دیگر اداروں کی ایک درجن سے زائد ٹیمیں تھیں۔
لیکن اب پنجاب کو دو ریجنل ایسوسی ایشنز سنٹرل پنجاب اور جنوبی پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور وفاقی دارالحکومت اسلام ریجن کو ناردرن ریجن کا نام دیا گیا ہے۔
سابق فاسٹ بالر عاقب جاوید بھی ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرنے کے مخالفین میں شامل ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جس عجلت میں ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ختم کی گئی اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ نیا گھر بننے سے پہلے ہی پرانا گھر گرا کر انسان سڑک پر آ گیا ہو۔
اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح غلط فیصلوں سے ملک میں ہاکی کو نقصان پہنچا، اب کرکٹ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
عاقب جاوید کہتے ہیں کہ 22 کروڑ آبادی والے ملک کا موازنہ آسٹریلیا سے کرنا درست نہیں کیوں کہ آسٹریلیا کی آبادی کراچی کے برابر ہے۔ پاکستان میں کم سے کم 50 لاکھ نوجوان تو کرکٹ کھیلنے کے خواہش مند ہوں گے، ان میں سے صرف 192 کھلاڑیوں کو علاقائی ٹیموں میں منتخب کرنے سے کرکٹ کی کیا خدمت ہو گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ ان علاقائی ٹیموں میں بھی عمر گل اور عمران فرحت جیسے کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے جن کا پاکستان کی کرکٹ کے ساتھ کوئی مستقبل نہیں ہے۔
سابق فاسٹ بالر کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم سے جو کھلاڑی ملنے گئے انہیں اپنے محکموں کی جانب سے ملازمتوں سے فراغت یا ڈیسک جاب کرنے کے نوٹس ملے ہوئے ہیں۔
لیکن سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود کہتے ہیں کہ علاقائی کرکٹ کو مالی معاونت فراہم کر کے اس نظام کو بھی چلایا جا سکتا ہے۔
اُن کے بقول اگر علاقائی کرکٹ میں اسپانسرز کا عمل دخل بڑھایا جائے تو اس سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ایسے ٹورنامنٹ ہونے چاہئیں جن میں زیادہ سے زیادہ کھلاڑیوں کو اپنا ٹیلنٹ دکھانے کا موقع ملے۔
عاقب جاوید کہتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کی وجہ سے نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آ رہا۔ اسی طرز کی کرکٹ میں ہی پاکستان نے 1992 کا ورلڈ کپ، 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور 2017 کی چیمپئنز ٹرافی جیتی۔
پاکستان میں ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کب شروع ہوئی؟
پاکستان میں 1970 میں ڈیپارٹمنٹل کرکٹ کا آغاز ہوا جب سابق کپتان عبدالحفیظ کاردار اور اس وقت کے چیئرمین پی سی بی نے سوئی ناردرن گیس، حبیب بینک، پاکستان واپڈا اور پی آئی اے جیسے اداروں کو کھلاڑیوں کو ملازمت فراہم کرنے پر قائل کیا۔
تاہم نیا ماڈل سامنے آنے کے بعد کئی اداروں نے کھلاڑیوں کے ساتھ اپنے معاہدے ختم کر دیے ہیں جب کہ مستقل ملازمت رکھنے والے کھلاڑیوں کو کرکٹ کی بجائے ڈیسک پر نوکری کرنے کے نوٹس بھیجے گئے ہیں۔
ان میں سے بہت سے کھلاڑی کرکٹ کی اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ان اداروں کے ساتھ منسلک تھے اور ان کے پاس دیگر شعبوں میں کام کرنے کا تجربہ بھی نہیں ہے۔
نئے ماڈل کے تحت ریجنز شہر، کلب اور گراس روٹ لیول پر کرکٹ کے ذمہ دار ہوں گے۔ تاہم کرکٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر سے نافذ العمل اس نئے ماڈل کے ساتھ تاحال کوئی کلب رجسٹر نہیں ہو سکا۔