رسائی کے لنکس

اسکول پرنسپل پر ریپ کا الزام؛ 'محلے دار پوچھتے ہیں آپ کی بیٹی بھی تو یہاں پڑھاتی تھی'


"میری دوست اس اسکول میں پڑھا چکی ہیں، انہوں نے مجھے بتایا کہ اس واقعے کے سامنے آنے کے بعد ان کی والدہ سے محلے والوں نے سوال کیا کہ کیا آپ کی بیٹی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہوا تھا جو اس نے اسکول چھوڑا؟" یہ کہنا ہے 30 سالہ رضیہ (فرضی نام) کا جو کراچی کے علاقے گلشنِ حدید کی رہائشی ہیں۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ان دنوں ایک نجی اسکول میں خواتین اساتذہ اور اسٹاف کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے کا واقعہ موضوع بحث ہے۔

گلشن حدید میں قائم اس نجی اسکول کے پرنسپل پر الزام ہے کہ اُنہوں نے خواتین اسٹاف کو جنسی طور پر ہراساں کیا۔ پولیس نے ملزم کا سات روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کر لیا ہے۔

پولیس نے ملزم کو چار ستمبر کو گرفتار کیا تھا۔ سرکار کی مدعیت میں درج ہونے والے اس مقدمے میں پولیس کو اس واقعے کا علم سوشل میڈیا سے ہوا جس میں ایک ویڈیو میں ملزم کو ایک خاتون کے ساتھ نازیبا حرکات کرتے ہوئے دیکھا گیا۔

پولیس نے ویڈیو دیکھنے کے بعد مزید معلومات اکھٹی کیں اور اسکول پہنچے جہاں موجود شخص نے اپنا تعارف اسکول کے پرنسپل کے طور پر کروایا۔

پولیس کے مطابق ملزم کے پاس سے موبائل فون بر آمد کیا گیا تاہم ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ مدعی نے وائرل ہونے والی ویڈیو کی تصدیق کی ہے۔

پولیس کے مطابق ملزم نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے اسکول کا سی سی ٹی وی سسٹم ہیک کیا گیا ہے اور ہیکر نے اس کو بلیک میل کر کے 10 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا جسے اس نے رد کر دیا تھا۔

پاکستان میں ہراسانی سے متعلق قوانین کتنے مؤثر؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:30 0:00

ملزم کا کہنا ہے کہ ویڈیو میں نظر آنے والی خواتین سے اس کا تعلق رہا ہے اس نے کسی خاتون سے زبردستی نہیں کی۔ لیکن اس نے اسکول کی کسی ٹیچر یا اسٹاف کو جنسی ہراسانی کا نشانہ نہیں بنایا۔

یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی متعدد ایسے واقعات میڈیا پر رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں مدارس، تعلیمی اداروں میں طلبہ اور اسٹاف کو جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

حال ہی میں بہاولپور یونیورسٹی کے واقعے پر عوام میں خاصا غم و غصہ دیکھا گیا تھا اور یہ اطلاعات بھی آئیں تھیں کہ والدین اپنی بچیوں کو یونیورسٹی بھیجنے سے گریزاں ہیں۔

ماہرین کے مطابق ایسے واقعات کی نشاندہی اور رپورٹنگ کے ذریعے جہاں ایسے جرائم میں ملوث افراد منظر عام پر آتے ہیں وہیں مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر متاثرہ افراد کی شناخت ظاہر ہونے سے مسائل حل ہونے کے بجائے مزید الجھ جاتے ہیں۔

کیا ایسے واقعات کی رپورٹنگ سے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی آ رہی ہے؟

کراچی یونیورسٹی کی ڈین آف آرٹس ڈاکٹر شائستہ تبسم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بہاولپور یونیورسٹی کا واقعہ جس طرح پیش کیا گیا وہ سیاسی مقاصد کے لیے بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن اُن کے بقول جو رائے عامہ بنی وہ یہ تھی کہ پبلک سیکٹر یونیورسٹی میں اگر ایسے مسائل ہوں تو ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔

اُن کے بقول ایسے مسائل جو لڑکیوں سے متعلق ہوں اس پر والدین کا اعتماد اور بھروسہ بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ ایسے واقعات ان کی ہمت توڑ دیتے ہیں۔

ڈاکٹر شائستہ تبسم کہتی ہیں کہ پہلے ہی یہاں لڑکیوں کو تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں میں بھیجنا اتنا آسان نہیں پھر ایسے واقعات کا سامنے آنا، ویڈیوز کا لیک ہونا، وائرل ہونا وہ لڑکیوں کی تعلیم و ترقی کے رہے سہے مواقعوں کو بھی ضائع کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر شائستہ تبسم کے مطابق ایسے واقعات کی سنسنی خیز رپورٹنگ ان بچیوں کے مستقبل کے راستوں کو بند کر دیتی ہے۔

'میڈیا کو ضابطۂ اخلاق پر عمل کرنا چاہیے'

لبنی جرار نقوی فیکٹ چیکر اور صحافی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب ایسی خبریں تعلیمی اداروں سے منظرِ عام پر آئیں تو اسے پیش کرنے کا طریقہ ہوتا ہے۔

اُن کے بقول درس و تدریس ہمیشہ سے ایک قابلِ احترام پیشہ سمجھا جاتا رہا ۔ اساتذہ کو بچوں کے روحانی والدین کے طور پر دیکھا جاتا تھا جس کی کمی آج وقت گزرنے کے ساتھ دیکھی جا رہی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اب جس طرح سے خبریں پیش کی جا رہی ہیں اس سے لوگوں کے دلوں سے اساتذہ کا احترام ختم ہوتا جا رہا ہے ایسی خبروں سے ان کی اہمیت کم کی جا رہی ہے اور اس کی ایک وجہ رپورٹنگ کا غلط طریقۂ کار بھی ہے۔

کیا ایسے واقعات کی کوریج درست انداز میں کی جا رہی ہے؟

اس سوال کے جواب میں عکس ریسرچ سینٹر کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، تسنیم احمر کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے میڈیا میں مرچ مسالہ لگا کر خبر پیش کی جاتی ہیں۔ ایسے ایسے انداز سے خبر کو نشر کیا جاتا ہے کہ متاثرہ خواتین گھروں میں بیٹھ جائیں یا خدا نخواستہ خودکشی تک پہنچ جائیں۔

تسنیم احمر کے مطابق ہمارا میڈیا اور سوشل میڈیا ایسے موضوعات اور مسائل کی حساسیت کو ابھی تک سمجھ نہیں پایا ہے۔ ماسوائے ایک دو چینل کے جنہوں نے ٹرگر وارننگ (خبردار لکھا ہوا آگیا) کے ساتھ خبر چلائی۔

تسنیم احمر کہتی ہیں کہ فوٹیجز کا دکھانا ان مسائل کو حل کرنے میں کوئی مدد نہیں کرتا بلکہ اس کا ایک منفی اثر ہوتا ہے اور اس کا سامنا خواتین کو ہی کرنا پڑتا ہے۔

تسنیم احمر کہتی ہیں کہ "یہ واقعات وقت کے ساتھ بڑھے نہیں ہیں اب ان کی رپورٹنگ زیادہ ہونے لگی ہے جو کہ مثبت بات ہے کہ اس پر بات ہو رہی ہے چاہے وہ ہراسمنٹ، ریپ یا تشدد کا کیس ہو۔ لیکن میں یہ ضرور کہوں گی کہ کوریج صحیح طرح سے نہیں ہو رہی۔"

وہ کہتی ہیں کہ کوریج کرنا، خبر دینا یہ تو ضروری ہے ہی لیکن جس طرح سے اس خبر کو پہنچایا جاتا ہے وہ طریقہ غلط ہے چاہے وہ نیوز میڈیا ہو یا انٹر ٹینمنٹ میڈیا جس میں لوگ ریٹنگ کے چکر میں سیریل تک بنا لیتے ہیں۔

ایسے واقعات کا اثر متاثرہ شخص اور معاشرے پر کیسے پڑتا ہے؟

لبنی جرار کا کہنا تھا کہ صنفی تشدد ہو یا کوئی بھی ایسا واقعہ جس سے کسی بھی فرد کی زندگی براہ راست متاثر ہو اس طرح کی رپورٹنگ کرنے والوں اور نیوز روم میں کام کرنے والوں کو اب بھی بہت تربیت کی ضرورت ہے۔

تسنیم احمر کہتی ہیں کہ اگر چینلز ریٹنگ کے چکر سے باہر نکل آئیں تو مثبت تبدیلی آ سکتی ہے کیوں کہ اس طرح کی سنسنی خیز رپورٹنگ سے متاثرہ خواتین کی زندگی مزید اجیرن ہو جاتی ہے۔

کیا ایسی خبریں ذہنی صحت کو متاثر کرنے کا سبب بنتی ہیں؟

ماہر نفسیات ڈاکٹر آشا بیدار گزشتہ پچیس برسوں سے صنٖفی تشدد، ٹراما، لائف اسکلز پر کام کر رہی ہیں۔

اس واقعے سے متعلق ہونے والی کوریج پر ان کا کہنا ہے کہ اس کی کوریج کا اثر صرف ان خواتین پر نہیں جو اس کا شکار ہوئی ہیں یا وہ طالبات جو وہاں زیر تعلیم ہیں بلکہ پورے معاشرے میں موجود عورتوں اور لڑکیوں پر اس کا منفی پڑے گا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی ہائی پروفائل کیسز ہوتے ہیں تو ہر عورت کو اپنی زندگی میں پیش آنے والا کوئی نہ کوئی واقعہ یاد آتا ہے۔

آشا بیدار کے مطابق ایسی خبروں کا سامنے آنا تو بہت ضروری ہے، لیکن اس کو پیش کرنے کا انداز بہتر ہونا چاہیے۔

کیا نیوز چینلز کے سوشل میڈیا ڈیسک سنسنی پھیلاتے ہیں؟

مقامی نیوز چینل 'نیو' کے ڈائریکٹر نیوز محمد عثمان کہتے ہیں کہ اس خبر کو بیشتر نیوز چینلز نے پیرنٹل گائیڈنس (پی جی) لگا کر نشر کیا۔ لیکن اصل مسئلہ سوشل میڈیا کا ہے، جہاں ایسا کوئی انتباہ یا وارننگ نہیں لگائی جاتی۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ میڈیا نے ویڈیوز میں موجود خواتین کی شناخت کو ظاہر کیا۔ یہ ویڈیوز مین اسٹریم میڈیا کے بجائے سوشل میڈیا پر موجود ہیں جنہیں سنسنی خیز ہیڈ لائنز اور تھمب نیلز کے ساتھ شیئر کیا جا رہا ہے۔

محمد عثمان کہتے ہیں کہ ہمیں سب سے بڑے چیلنج کا سامنا تب ہوتا ہے جب نیوز چینلز کے ہی سوشل میڈیا ڈیسک سے نشر ہونے والی خبر ہمیں بھیجی جائے اور پوچھا جائے کہ یہ کس قسم کی صحافت ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول نیوز چینلز ضابطۂ اخلاق کو سامنے رکھتے ہوئے ذمہ دارانہ صحافت کر رہے ہیں۔ لیکن ان ہی کی سوشل میڈیا ٹیمز میں تربیت یافتہ اسٹاف کی کمی کی وجہ سے سنسنی خیزی بڑھ رہی ہے۔

محمد عثمان کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ایک غیر ذمہ دارانہ رویہ جو انہیں نظر آیا وہ کچھ چینل کی جانب سے اسکول کا بورڈ اور نام کا سامنے آنا تھا۔

اُن کے بقول اگر اسکول کا نام سامنے نہ آتا تو وہاں پڑھنے والی طالبات اور اساتذہ پر سوال نہ اٹھتے۔

فورم

XS
SM
MD
LG