بھارت کا دارالحکومت دہلی گزشتہ تین ماہ سے ملک کے دیگر شمالی علاقوں کی طرح شدید گرم لہر کی گرفت میں تھا۔ البتہ پیر کو موسم کا مزاج اچانک بدلا اور شدید باد و باراں نے دہلی اور اس کے مضافات کو اپنی لپیٹ میں لیا۔ 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چلنے لگیں اور تقریباً ایک گھنٹے تک موسلا دھار بارش ہوتی رہی۔
طوفانی ہواؤں کا سب سے زیادہ اثر مشرقی اور وسطی دہلی میں رہا۔ میونسپل کارپوریشن کو درختوں کے گرنے سے متعلق 300 ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں۔
شدید بارش اور تیز ہواؤں نے دہلی کے معمولاتِ زندگی کو درہم برہم کر دیا۔اس دوران تین افرادہلاک بھی ہو ئے۔ 50 سالہ کمال جامع مسجد کے علاقے میں اپنےگھر کے نیچے کھڑا تھا کہ پڑوس کے مکان کی بالکونی کی چھت اس کے اوپر گر گئی۔ انہیں اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کی۔ انگوری باغ کے علاقے میں 65 سالہ بے گھر شخص بشیر بابا ایک پیپل کے درخت کے نیچے کھڑا تھا کہ وہ درخت اس پر گر گیا جس سے ان کی موت ہوئی۔ ہلاد پور میں پانی سے بھرے ایک ریلوے انڈر پاس سے 50 سالہ شخص کی لاش برآمد ہوئی۔
محکمۂ موسمیات کے حکام کے مطابق دہلی میں 2018 کے بعد یہ پہلا شدید طوفان تھا جس کی وجہ سے دہلی میں درجہ حرارت 40 ڈگری سے گر کر 25ڈگری پر آ گیا۔
طوفان کے نتیجے میں 300 سے زائد درخت جڑ سے اکھڑ گئے۔ کوئی کسی کار پر گرا تو کوئی کسی آٹو رکشہ پر۔ کسی درخت نے گر کر پوری سڑک ہی بند کر دی۔ درختوں کے گرنے اور سڑکوں پر پانی بھرنے سے کئی علاقوں میں راستے بند ہوئے۔ دفاتر اور کام سے واپس لوٹنے والے گھنٹوں پھنسے رہے۔ گھنٹوں تک شاہراہوں پر ٹریفک جام رہا۔
طوفان کی وجہ سے درجنوں گاڑیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں جن میں بیٹھے ہوئے متعدد افراد زخمی ہو گئے۔ کچھ زخمیوں کا اسپتالوں میں علاج کیا گیا۔ چاندنی چوک کے علاقے میں ایک کار میں ایک ہی خاندان کے تین افراد سفر کر رہے تھے جن میں ایک سالہ بچہ بھی شامل تھا۔ تیز ہواؤں کے سبب ایک درخت گاڑی پر گر گیا، بعد ازاں ان افراد کو گاڑی سے بحفاظت نکال لیا گیا۔
طوفان کے سبب متعدد علاقوں میں بجلی کی سپلائی معطل ہو گئی جو کئی گھنٹے کے بعد بحال ہو سکی۔ طوفان سے فضائی ٹریفک بھی متاثر ہوئی۔ متعدد پروازوں کے روٹ بھی تبدیل کیے گئے جب کہ کئی پروازیں تاخیر کا شکار ہوئیں۔
تاریخی جامع مسجد کو نقصان
شدید نوعیت کے اس طوفان سے دہلی کی تاریخی جامع مسجد کو بھی کافی نقصان پہنچا۔ درمیانی بڑے گنبد کے اوپر لگے دھات کا آرئشی کلس ٹوٹ کر گر گیا۔ میناروں اور گنبدوں سے کئی پتھر بھی ٹوٹ کر مسجد کے صحن میں گرے جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہوئے۔
جامع مسجد کے امام مولانا سید احمد بخاری نے بتایا کہ بڑے گنبد کا دھات کا وزنی کلس ٹوٹ کر چھت پر ہی گرا۔ اگر وہ نیچے گرا ہوتا تو بڑا حادثہ ہو سکتا تھا۔ اس کی اونچائی تقریباً 12 فٹ ہے اور وہ بھی اتنا ہی پرانا ہے جتنی پرانی جامع مسجد ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کلس کا ایک حصہ، جو بہت وزنی ہے، ابھی لٹکا ہوا ہے۔اگر وہ حصہ گرا تو سامنے کی دیوار پر گرے گا۔ جس کی وجہ سے مسجد کا اصل حصہ خالی کرا لیا گیا تھا اور نمازیوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ دوسری طرف سے مسجد میں آئیں۔
مولانا سید احمد بخاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ انہوں نے اس بارے میں محکمۂ آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھا ہے اور ان سے مسجد کی مرمت کی اپیل کی ہے کیوں کہ محکمۂ آثارِ قدیمہ ہی کے پاس مرمت کرنے والے ماہرین ہیں۔
ا
س تاریخی مسجد کی تعمیر مغل حکمران شاہ جہاں نے 1650 سے 1656 کے درمیان کرائی تھی۔ وہاں سے تاریخی لال قلعہ بالکل سامنے نظر آتا ہے۔
حالیہ برسوں میں اس تاریخی مسجد کو کافی نقصان پہنچا ہے اور وہ بڑے پیمانے پر مرمت کی متقاضی ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران ریڈ سینڈ اسٹون کے ٹکڑے بارہا ٹوٹ ٹوٹ کر گرے ہیں۔
چند سال قبل محکمہ آثار قدیمہ کے انجینئروں پر مشتمل ایک ٹیم نے مسجد کا سروے کیا تھا اور اپنی رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ مسجد بہت خستہ حالت میں ہے اور اگر اس کی فوری مرمت نہیں کرائی گئی تو وہ کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔