افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان کی وساطت سے پاکستان اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) میں جاری مذاکرات کے تازہ عمل میں پیش رفت کی توقع ظاہر کی جا رہی تھی اور اب اس میں کچھ پیش رفت کی اطلاعات سامنے آئی بھی ہیں البتہ مبصرین کی رائے میں ٹی ٹی پی کے لیے شدت پسندی کو چھوڑ کر پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت سماجی دھارے میں شامل ہونا آسان نہیں ہوگا۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی حال ہی میں جاری ہونے والے رپورٹ میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کو پاکستان کی سلامتی کے لیے مستقل خطرہ قرار دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ شاید حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان جاری مذاکرات کے دوران مستقبل میں جنگ بندی کے سمجھوتے کا امکان کم ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے لیے تیار کردہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی جب ٹی ٹی پی کی طرف سے حالیہ مہینوں میں پرتشدد حملوں میں اضافے کے باوجود حکومت پاکستان اور شدت پسند گروپ کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
رپورٹ میں اس بات کا تذکرہ کیا گیا کہ گزشتہ سال اگست میں کابل میں افغان طالبان کی واپسی سے افغانستان میں مقیم غیر ملکی شدت پسند گروپوں میں سب سے زیادہ فائدہ ٹی ٹی پی کو ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت افغانستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے تین سے چار ہزار شدت پسند موجود ہیں۔
اپریل کے اواخر میں پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان افغان طالبان کی وساطت سے مذاکرا ت کا عمل جاری ہے اور اس سلسلے میں ٹی ٹی پی نے 30 مئی تک جنگ بندی میں توسیع بھی کررکھی ہے۔
جنگ بندی کا مستقبل
اگرچہ تاحال ٹی ٹی پی نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی میں مزید توسیع کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں باقاعدہ کوئی اعلان نہیں کیا گیا البتہ ذرائع سے اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ فریقین نے ایک دوسرے پر حملے نہ کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ بات چیت کا عمل مثبت انداز میں جاری ہے اور ٹی ٹی پی کی طرف سے جنگ بندی میں مزید توسیع کا امکان ردّ نہیں کیا جاسکتا ہے۔
پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان اس سے قبل متعدد بار بالواسطہ اور بلاواسطہ مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن ابھی تک سرکاری طور لگ بھگ ایک ماہ سے جاری مذاکرات کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
لیکن دوسری جانب یہ توقع ظاہر کی جاری ہے کہ افغان طالبان کی وساطت سے جاری مذاکرات کے تازہ عمل میں پیش رفت ہو سکتی ہے ۔ اس پر بعض مبصرین کی رائے یہ ہے کہ ٹی ٹی پی کے لیے شدت پسندی کو چھوڑ کر پاکستان کے آئین اور قانون کے تحت سماجی دھارے میں شامل ہونا آسان نہیں ہوگا۔
یادرہے ماضی میں ٹی ٹی پی ، القاعدہ اور طالبان کے ایک دوسرے سے روابط رہے ہیں۔ القاعدہ کی دہشت گردی کی کارروائیاں کرنے کی صلاحیت کافی کمزور ہوچکی ہیں جب کہ طالبان اور ٹی ٹی پی کے روابط برقرار ہیں۔
اگرچہ پاکستان متعدد بار افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے پر زور دیتا آرہاہے لیکن کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی امور کے سربراہ ڈاکٹر نعیم احمد کہتے ہیں کہ افغان طالبان کے لیے نظریاتی طور پر ایسا کرنا مشکل ہے۔
نعیم احمد کہتے ہیں کہ افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک جیسے نظریات کے حامل ہیں اور ن کے آپس میں نہایت قریبی تعلقات ہیں۔ صدر اشرف غنی کی حکومت کے خلاف طالبان کی عسکری کارروائیوں میں ٹی ٹی پی ان کے ساتھ رہی ہے۔
خدشات اور امکانات
ماضی میں ٹی ٹی پی اور حکومت کے دوران متعدد بار جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے۔ اور اس بات کا خدشہ ہے کہ موجود سیز فائر بھی شاید برقرار نہیں رہ سکے۔
نعیم احمد کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ٹی ٹی پی شاید جنگ بندی برقرار رکھنے کے وعدے پر قائم نہ رہے کیوں کہ وہ پاکستان کو سابق قبائلی علاقوں میں اپنے خلاف کارروائیوں سے روکنے کے لیے دباؤ برقرار رکھنا چاہے گی۔
خیال کیا جاتاہے کہ افغانستان میں طالبان کی واپسی کے بعد پاکستان کے سیکیورٹی کے مسائل کم ہو جائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے ان شدت پسند عناصر کے لیے گزشتہ سال عام معافی کا اعلان کیا تھا جو شدت پسندی سے تائب ہوکرپاکستان کے آئین اور قانون کے تحت مرکزمی سماجی دھارے میں شامل ہونے لیے تیار ہوں گے۔ لیکن اس کے باوجود ٹی ٹی پی نے یہ پیش کش قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔
تجزیہ کار نعیم احمد کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کے ساتھ افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں گزشتہ دو دہائیوں سے جاری شدت پسندی اور سیکیورٹی آپریشنز سے متاثر ہونے والے افراد کی بحالی اور ان علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل ضروری ہیں۔ ان اقدامات سے ریاست پر اعتماد بحال ہو گا اور شدت پسندی کے رجحان میں کمی آئے گی۔ جس کے نتیجے میں ٹی ٹی پی جیسے شدت پسند گروپوں کے طرف لوگوں کا رجحان بھی کم ہو جائےگا۔
’بات چیت ہی سے پیش رفت ممکن ہے‘
دفاعی امو ر کے تجزیہ کار سید نذیر اس بات کی توقع کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ جاری بات چیت میں مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے اور 30 مئی کو ختم ہونے والی جنگ بندی کی مدت میں مزید توسیع ممکن ہے۔
سید نذیر کہتے ہیں کہ ان کی معلومات کے مطابق ٹی ٹی پی کے ساتھ بعض معاملات طے پا گئے ہیں اور ان کے بقول ٹی ٹی پی سے وابستہ شدت پسندوں کو ایک پرامن زندگی کی راہ اختیار کرنے کے موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔
ان کے مطابق ٹی ٹی پی کے جنگ جوؤں کو روزگار فراہم کرنے، ان کے مقامی مسائل کے حل اور ان کے خاندانوں کی پاکستان واپسی جیسے امور میں بظاہر پیش رفت ہوئی ہے۔
دفاعی تجزیہ کار سید نذیر کا کہنا ہے کہ ان کی اطلاع کے مطابق ٹی ٹی پی کے بعض قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
یادر ہے کہ حکومتِ پاکستا ن نے طالبان سے مذاکرات کے لیے مقامی قبائل کی کوششوں کی بھی حوصلہ افزائی کی ہے۔ حال ہی میں قبائلی عمائدین کے ایک وفد نے اس سلسلے میں افغاستان کا دورہ بھی کیا تھا ۔
سیدنزیر کہتے ہیں اس بات کا امکان ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو بات چیت کے عمل کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے ایک بہت بڑ ا قبائلی جرگہ افغانستان جا کر طالبان حکومت اور ٹی ٹی پی سے ملاقات کر سکتا ہے۔
اگر چہ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے حملے کے متاثرین اور بعض دیگر سیاسی اور قوم پرست جماعتیں ان مذکرات کے خلاف ہے لیکن سید نزیر کہتے ہیں کہ بالآخر مسائل کا حل بات چیت ہی سے ممکن ہے۔ بصورت دیگر شدت پسندی اور عسکریت پسندی کا رجحان جاری رہے گا۔