نئی دہلی کی پولیس نے دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کے خلاف بغاوت کے الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی ہے۔ ان پر سوشل میڈیا پوسٹ میں اشتعال انگیزی اور معاشرے میں تفریق پیدا کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کے جوائنٹ کمشنر نیرج کمار کے مطابق ظفر الاسلام خان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 124-اے (بغاوت) اور 153-اے (دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانے) کی دفعات کے تحت وسنت کنج کے ایک باشندے کی شکایت پر کارروائی کی گئی ہے۔
حالیہ دنوں میں جن مسلمانوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے ہیں ان میں ڈاکٹر ظفر الاسلام خان سب سے معمر یعنی 75 سال کے ہیں جب کہ ایک آئینی منصب پر فائز ہیں۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان ایک شہرت یافتہ اسلامی اسکالر، صحافی اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ہیں۔ وہ ایک انگریزی اخبار 'ملی گزٹ' کے ایڈیٹر بھی ہیں۔
انہوں نے 28 اپریل کو ایک ٹوئٹ کی تھی جس میں انہوں نے دہلی میں ہونے والے فسادات کے سلسلے میں بھارتی مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہونے پر حکومت کویت کا شکریہ ادا کیا تھا۔
انہوں نے اس ٹوئٹ میں کہا تھا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ اقتصادی مفادات کی وجہ سے مسلم اور عرب دنیا بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم پر خاموش رہے گی۔
انہوں نے متعدد مسلم شخصیات کے نام لے کر کہا تھا کہ اسلامی تہذیب و ثقافت میں ان کی خدمات کی وجہ سے وہاں ہر گھر میں ان کا نام عزت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ انہوں نے ذاکر نائیک کا بھی نام لیا تھا جن کے خلاف بھارت کی درخواست پر انٹرپول نے ریڈ کارنر نوٹس جاری کیا ہوا ہے۔
ذاکر نائیک کو بھارت نے مفرور قرار دے رکھا ہے اور ان کے خلاف کئی مقدمات قائم ہیں۔ وہ اس وقت ملائیشیا میں مقیم ہیں۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان نے یہ بھی لکھا تھا کہ بھارتی مسلمانوں نے اپنے خلاف چل رہی نفرت انگیز مہم اور فسادات کی کوئی شکایت مسلم اور عرب دنیا سے نہیں کی ہے۔ جس دن انہوں نے شکایت کی اس دن آندھی آجائے گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنماؤں نے ان کے اس بیان کی مذمت کی اور دہلی کے لیفٹننٹ گورنر انل بیجل سے ملاقات کرکےڈاکٹر ظفر الاسلام خان کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ان کی ٹوئٹس پر تنازع ہونے کے بعد انہوں نے یکم مئی کو فیس بک پوسٹ میں وضاحت کی کہ انہوں نے ملک کی شناخت کو کبھی بھی داغدار کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ محب وطن شہری ہیں۔
انھوں نے لکھا کہ میں نے کسی بھی غیر ملکی حکومت یا تنظیم سے اپنے ملک کی شکایت نہیں کی اور نہ ہی مستقبل میں کروں گا۔ میں ایک محب وطن شہری ہوں اور میں نے بیرون ملک میں ہمیشہ اپنے ملک کا دفاع کیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق انہوں نے اس تنازع پر معافی بھی مانگی اور کہا کہ یہ پوسٹ ایک ایسے غیر مناسب وقت پر جاری کی گئی جب ملک ایک طبی ایمرجنسی سے نبرد آزما ہے۔
انہوں نے اپنے تفصیلی بیان میں ملک کے سیکولر آئین اور جمہوری نظام پر اعتماد کا اظہار بھی کیا۔
ڈاکٹر طفر الاسلام خان نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میڈیا کے دعوے کے برعکس نہ تو اپنا ٹوئٹ ڈیلیٹ کیا ہے اور نہ ہی معافی مانگی ہے۔
ان کے بقول انہوں نے ٹوئٹ کے لیے معافی نہیں مانگی بلکہ ایک غیر مناسب وقت پر اسے جاری کرنے کے لیے مانگی ہے۔
ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کا کہنا تھا کہ میں اپنے موقف پر قائم ہوں اور ملک میں نفرت انگیز سیاست کے خلاف میری لڑائی جاری رہے گی۔ ایف آئی آر ، گرفتاری اور جیل میرا راستہ نہیں بدل سکتے۔
ان کے بقول انہوں نے بہت اچھے وکلا کی خدمات حاصل کی ہیں۔ ان کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی وجہ سے انہوں نے ایک نیوز چینل 'ٹائمز ناؤ' کو قانونی نوٹس بھی جاری کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حق میں آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ ان کے بقول کچھ لوگ نہیں چاہتے تھے کہ انہیں دوبارہ اس منصب پر فائز کیا جائے اس لیے ان کے خلاف ایک ماحول بنایا گیا۔
انہیں تین سال کی مدت کے لیے 20 جولائی 2017 کو اس منصب پر فائز کیا گیا تھا اور اسی سال جولائی میں ان کی مدت ختم ہو رہی ہے۔
اس حوالے سے پولیس کا موقف جاننے کے لیے دہلی پولیس سے رابطہ کیا گیا تاہم ان کا موقف نہ مل سکا۔
دریں اثنا درجنوں سرکردہ شہریوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے ڈاکٹر طفر الاسلام خان کے حق میں ایک بیان جاری کیا اور حکومت سے ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا جنہوں نے ان کے فیس بک پوسٹ کو مبینہ طور پر توڑ مروڑ کر پیش کیا۔
اس بیان پر 92 شخصیات کے دستخط ہیں جن میں سوامی اگنی ویش، عرفان انجینئر، جاوید نقوی، جان دیال، ارون کمار اور روی نائر وغیرہ شامل ہیں۔