بھارت میں عالمی وبا کرونا وائرس کی دوسری لہر کا زور اب ٹوٹ رہا ہے لیکن ’ڈیلٹا پلس‘ نامی ایک نئے ویرینٹ نے حکومت کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔
بھارت میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کرونا کے 50 ہزار 848 مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ وائرس سے مزید ایک ہزار 358 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
یاد رہے کہ بھارت میں پہلی مرتبہ تشخیص ہونے والا ’ڈیلٹا‘ ویرینٹ ملک میں کرونا کی دوسری لہر کا سبب بنا تھا لیکن اب وائرس کی اس قسم نے ایک نئی شکل اختیار کر لی ہے جسے ’ڈیلٹا پلس‘ کا نام دیا گیا ہے۔
کرونا کے ’ڈیلٹا پلس‘ ویرینٹ سے متعلق اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ نئی قسم تیسری لہر کا سبب بن سکتی ہے۔
بھارت کی مرکزی وزارتِ صحت نے اس نئی قسم کو ’ویرینٹ آف کنسرنز‘ یعنی تشویش والے زمرے میں رکھا ہے۔
یہ نیا ویرینٹ تا حال ریاست مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش اور کیرالہ سمیت کئی ریاستوں میں پایا گیا ہے جب کہ اس کے مزید دیگر ریاستوں میں بھی پھیلنے کا خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ’ڈیلٹا پلس‘ ویرینٹ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 22 جون کو جہاں مہاراشٹرا، مدھیہ پردیش اور کیرالہ میں اس کے تقریباً 24 کیسز پائے گئے تھے وہیں 23 جون کو یہ تعداد بڑھ کر تقریباً 40 ہو گئی ہے۔
رپورٹس کے مطابق اس ویرینٹ کے سب سے زیادہ 21 کیسز ریاست مہاراشٹرا میں پائے گئے ہیں جب کہ مدھیہ پردیش میں چھ، کیرالہ میں تین، تمل ناڈو میں تین، پنجاب، آندھرا پردیش اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک ایک کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
وزارتِ صحت کے سیکریٹری راجیش بھوشن نے ایک نیوز بریفنگ میں بتایا ہے کہ حکومت نے ’ڈیلٹا پلس‘ ویرینٹ کو تشویش کے زمرے میں رکھا ہے۔
یہ ویرینٹ بھارت سمیت امریکہ، برطانیہ، جاپان، روس، پرتگال، سوئٹزرلینڈ، نیپال اور چین میں پایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تمام ریاستی حکومتوں کو خط لکھ کر ہدایت کی گئی ہے کہ وائرس کی اس نئی قسم کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کریں۔
وزارتِ صحت کے مطابق ڈیلٹا پلس ویرینٹ کے پوری دنیا میں 200 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں سے نصف سے زائد برطانیہ اور امریکہ سے سامنے آئے ہیں۔ بھارت میں سب سے پہلے اس کی تشخیص 11 جون کو ایک پرانے نمونے کی جانچ کے دوران ہوئی۔
حکومت کی جانب سے تشکیل کردہ کووڈ۔19 ٹاسک فورس کے سربراہ اور حکومت کے تھنک ٹینک نیتی آیوگ کے رکن ڈاکٹر وی کے پال کے مطابق چوں کہ وائرس پھیل رہا ہے اسی لیے کرونا کی نئی لہر آتی ہے۔ اگر اس دوران وائرس اپنی ساخت تبدیل کر لے تو دشواری ہوتی ہے اور اس بارے میں پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔
وزارتِ صحت نے متاثرہ ریاستوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کووڈ گائیڈ لائن کی سختی سے پابندی کریں اور جہاں ڈیلٹا پلس کے کیسز پائے جائیں تو ان علاقوں کو کنٹینمنٹ زون بنا کر ٹیسٹنگ اور ویکسی نیشن کے عمل کو تیز کریں۔
مہاراشٹرا کے کووڈ ٹاسک فورس کے رکن اوم شری واستو کا کہنا ہے کہ اس نئی قسم سے تیسری لہر آسکتی ہے۔
ان کے بقول ہمیں اس لیے زیادہ تشویش ہے کہ ہم اس کی فطرت کے بارے میں نہیں جانتے۔ اب تک جو بھی ویرینٹ دیکھے گئے ہیں وہ سب ایک دوسرے سے کہیں مختلف تھے۔
’ڈیلٹا پلس کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے‘
وزارت صحت کے مطابق ڈیلٹا پلس تیزی سے پھیلتا ہے جب کہ یہ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
وزارت صحت کا کہنا ہے کہ یہ ویرینٹ پھیپھڑوں کے خلیوں پر مضبوطی کے ساتھ چپکتا ہے اور قوتِ مدافت کو کم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے زیادہ خطرناک تصور کیا جا رہا ہے۔
حکومت کے مطابق ملک میں شہریوں کو فراہم کی جانے والی کووی شیلڈ اور کوویکسین ڈیلٹا ویرینٹ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن ڈیلٹا پلس پر وہ کتنی کارگر ہو سکتی ہیں اس بارے میں تفصیلات بعد میں سامنے آئیں گی۔
چندن اسپتال دہلی سے وابستہ ڈاکٹر اے کے سنگھ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی نیا ویرینٹ آتا ہے تو اس سے وائرس کی ایک اور لہر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ان کے مطابق ویکسین کی پہلی خوراک لینے کے بعد ڈیلٹا سے صرف 33 فی صد تک ہی تحفظ ہو پاتا ہے۔ یعنی جن کو پہلی خوراک مل گئی ہے وہ آٹھ ہفتے بعد اس ویرینٹ سے صرف 33 فی صد تک ہی بچ سکیں گے۔
رپورٹس کے مطابق حکومت کووی شیلڈ کی دو خوراکوں کے درمیان آٹھ سے 12 ہفتوں کے وقفے کو کم کر کے آٹھ ہفتے کر سکتی ہے۔
’تیسری لہر دوسری لہر کے مقابلے میں زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے‘
وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر دیپک آچاریہ کا کہنا ہے کہ دوسری لہر کے کمزور پڑنے اور مثبت کیسز میں کمی آنے کے بعد مختلف ریاستی حکومتوں نے لاک ڈاؤن کی پابندیاں نرم کر دی ہیں جس کی وجہ سے لوگ بڑی تعداد میں باہر نکلنے لگے ہیں۔
ان کے مطابق جتنا زیادہ لوگ گھروں سے باہر آئیں گے اور سرگرمیاں بڑھیں گی اتنا ہی وائرس کے نئی شکل اختیار کرنے کا خطرہ بھی بڑھے گا۔
وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر دیپک آچاریہ کا کہنا ہے کہ نئے ویرینٹ کے سبب اگر تیسری لہر آئی تو وہ دوسری لہر کے مقابلے میں زیادہ ہلاکت خیز ثابت ہو سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق چوں کہ وائرس اپنی شکل بدلتا رہتا ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پہلی والی قسم کا علاج جن ادوایات سے کیا گیا وہ دوسری قسم کے لیے بھی مؤثر ہو سکتی ہیں۔
لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت میں دی جانے والی ویکسینز نئے ویرینٹ پر کتنا اثرانداز ہوں گی یہ تحقیق کے بعد ہی پتا چل سکے گا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں کرونا کے سلسلے میں احتیاطی تدابیر کو جاری رکھنا ہے۔ اگر ہم نے لاپروائی شروع کر دی تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔