پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے جہاں ایک طرف حزب مخالف کی مختلف جماعتوں نے حکومت مخالف ریلیوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے تو دوسری طرف حکمران جماعت جلسوں کے ذریعے ہی اپنی عوامی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
تین روز قبل سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کے معاملے میں وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے اثاثوں کی تحقیقات کے لیے ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنانے کا حکم دیتے ہوئے درخواستوں کو نمٹا دیا تھا۔ جس کے بعد سے حزب مخالف کی طرف سے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبات میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
اس آواز میں آواز ملاتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنے کے لیے سات دن کا وقت دیتے ہوئے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
اتوار کو بھی ملک کے مختلف حصوں میں حزب مخالف نے ریلیاں نکالیں جب کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے عدالتی فیصلے میں خود کو سرخرو گردانتے ہوئے مختلف ریلیوں کا اہتمام کیا۔
ریلیوں اور جلسوں کے علاوہ حزب مخالف کے راہنماؤں کے ایک دوسرے سے رابطوں میں بھی تیزی آئی ہے تاکہ وزیراعظم پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
اتوار کو جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے مسلم لیگ (ق) کے قائد چودھری شجاعت حسین سے ملاقات کر کے عدالتی فیصلے کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چودھری شجاعت حسین کا کہنا تھا کہ تمام ججز نے ان کے بقول وزیراعظم کی صداقت کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ہی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
سراج الحق نے اس موقع پر ایک بار پھر وزیراعظم سے مستعفی ہونے کے مطالبے کو دہرایا۔
"کیس کی شفاف تحقیقات کے لیے وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، اور جب مشترکہ تحقیقاتی ٹیم اور سپریم کورٹ انھیں کلین چِٹ دے دے تو چشم ما روشن دل ماشاد وہ 60 دن کے بعد دوبارہ کرسی پر واپس آ جائیں۔"
ادھر حیدرآباد میں ایک احتجاجی کیمپ میں شریک پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر راہنما مولا بخش چانڈیو کا کہنا تھا کہ وہ وزیراعظم کو مشورہ دیں گے کہ وہ "باعزت طور پر عہدہ چھوڑ دیں۔"
حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ عدالتی فیصلے کے بعد حزب مخالف کو اپنے مطالبات پیش کرنے کی بجائے تحقیقاتی کمیٹی کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعظم کسی کے کہنے پر استعفیٰ نہیں دیں گے۔