ہمارے ساتھ ایجنٹ نے دھوکہ کیا ، اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ کشتی پر 28 افراد کو سوار کروائے گا لیکن اس نے ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگ کشتی پر سوار کر لیے جس وجہ سے کشتی زیادہ وزن برداشت نہ کرسکی اور سفر شروع ہونے کے آدھے گھنٹے بعد ہی کھلے سمندر میں ڈوب گئی
یہ کہنا ہے کہ گجرات کے گاؤں دولانوالہ کے رہائشی محمد عارف کا جن کا بیٹا علی حسنین اٹلی کے قریب کشتی الٹنے کے حادثے میں ہلاک ہوگیا ہے۔
اٹلی کے جنوبی علاقے میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں 59 افراد ہلاک ہوگئے ہیں جب کہ متعدد افراد ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں پاکستانی بھی شامل ہیں جن کا تعلق گجرات ، منڈی بہاوالدین ، راولپنڈی کے علاقوں سے بتایا گیا ہے۔
ایف آئی اے کی ایک ٹیم نے آج گجرات کے قریب گاؤں دولانوالہ کا دورہ کیا جہاں کشتی حادثے میں مرنے والے علی حسنین کے ورثا کے بیانات قلمبند کیے اور ان سے ایجنٹ اور اس کے ساتھیوں بارے چھان بین کی۔
ایف آئی اے کی ٹیم کا کہنا تھا کہ وہ فی الحال معلومات اکٹھی کررہے ہیں جن کی روشنی میں ایجنٹ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
‘ایجنٹ لالچ میں لڑکوں کی زندگیوں سے کھیلا
دولانوالہ کے رہائشی محمد عارف پیشے کے لحاظ سے کاشتکار ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بیٹے حسنین کی عمر 22 سال تھی اور وہ بسلسلہ روزگار ایک سال دبئی میں رہ رہا تھا جہاں وہ مزدوری کرتا تھا تاہم ان دنوں وہ دبئی میں کام کاج نہ ملنے کے باعث پریشان تھا۔
محمد عارف نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حسنین کا رابطہ گجرات کے ایک ایجنٹ سے ہوا جس نے اسے یورپ بھجوانے کی آفر کروائی۔ میرا بیٹا اس ایجنٹ کی چکنی چپڑی باتوں میں آگیا ۔
انہوں نے بتایا کہ ایجنٹ نے کچھ رقم علی حسنین سے ایڈوانس لی، باقی بیس لاکھ روپے اٹلی پہنچنے پر اسے ادا کیے جانے تھے۔ علی حسنین نے مجھے فون کرکے کہا تھا کہ جب میں اٹلی پہنچ کر آپ کو فون کال کروں تو آپ نے ایجنٹ کو گجرات میں 20 لاکھ روپے ادا کردینے ہیں۔
ہمارا اپنے بیٹے کے ساتھ 17 فروری کو رابطہ ہوا جس نے بتایا کہ وہ آج دبئی سے لیبیا پہنچ گیا ہے اور یہاں سے شپ کے ذریعے اٹلی جائے گا۔
22 فروری کو علی حسنین نے آخری بار کال کی اور کہا کہ وہ آج لیبیا سے شپ کے ذریعے اٹلی جارہا ہے ۔ میرا بیٹا بہت خوش تھا۔ اسے کیا پتہ تھا کہ اسے موت بلا رہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ ایجنٹ گجرات کے قریبی علاقے کا ہی ہے ، اس لیے اس نے مجھ سے کہا کہ وہ شپ پر 28 لڑکے ہی سوار کروائے گا۔ اس سے زیادہ ہرگز شپ پر سوار نہیں ہوں گے، لیکن ایجنٹ نے ہمیں دھوکہ دیا اور ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگوں کو شپ پر سوار کرلیا۔
ہمیں ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ شپ صرف آدھا گھنٹہ ہی چلا ، جس کے بعد ڈوب گیا ہے اور جو 40 سے زیادہ لاشیں نکلی ہیں ان میں میرے بیٹے علی حسنین کی لاش بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایجنٹ نے دوسرا دھوکہ ہمیں یہ دیا کہ کشتی حادثہ کے اگلے روز یعنی23 فروری کو اس نے ہمیں فون کرکے اطلاع دی کہ آپ کے بیٹے سمیت کشتی میں سوار تمام افراد کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔
ہم اس بات سے پریشان تھے کہ اگلے روز ہمیں ٹی وی چینلز کے ذریعے پتہ چلا کہ لڑکے ڈوب گئے ہیں اور لاشوں کی تصاویر دیکھیں تو میرے بیٹے کی فوٹو بھی ان میں شامل تھی۔
انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے والے آج پیر کے روز ہمارے گاؤں آئے تھے۔ انہوں نے ہمارے بیانات قلمبند کیے ہیں اور ایجنٹ کے بارے میں بھی پوچھا ہے ۔ میت پاکستان واپس لانے کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بیٹے کی لاش کےلیے تڑپ رہے ہیں ۔ ہماری وزیراعظم شہباز شریف سے درخواست ہے کہ ہمارے بیٹے کی لاش ہمیں پہنچائی جائے۔
‘مہنگائی کے باعث انسانی اسمگلنگ کے رحجان میں اضافہ’
پاکستان میں گزشتہ کچھ مہینوں میں مہنگائی کے بڑھنے اور پاکستانی کرنسی کے گرنے کے باعث لڑکوں میں ملک سے باہر جاکر روزگار کمانے کے رحجان میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
یہی نہیں بلکہ ان دنوں انسانی اسمگلنگ کے دھندے میں ملوث ایجنٹوں نے بھی اپنے ریٹ بڑھا لیے ہیں جن کا کہنا ہے کہ چونکہ انہوں نے ملک سے باہر نیٹ ورک میں شامل ایجنٹوں کو ادائیگی ڈالرز میں کرنا ہوتی ہے اس لیے اس کام کا پاکستانی کرنسی میں ریٹ اب زیادہ ہوگا ۔
پہلے یورپ جانے کے چھ سے دس لاکھ روپے لیے جاتے تھے لیکن حالیہ کشتی الٹنے کے واقعہ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ علی حسنین کو اٹلی پہنچانے کےلیے 20 لاکھ روپے سے زیادہ رقم میں معاملہ طے کیا گیا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پیر کے روز بتایا کہ کشتی کے حادثے میں 16 پاکستانی محفوظ رہے ہیں اور ان کی صحت بہتر ہے۔انہوں نے بتایا کہ اٹلی میں پاکستانی عہدے داروں نے بچ جانے والے پاکستانیوں سے ملاقات کی جنہوں نے بتایا کہ کشتی پر کل 20 پاکستانی سوار تھے۔
یاد رہے کہ دو سال قبل بھی یونان کے قریب کشتی الٹنے کا واقعہ پیش آیا تھا جس میں گجرات، منڈی بہاوالدین، سیالکوٹ، لالہ موسیٰ اور کھاریاں سے تعلق رکھنے والے مجموعی طور پر 16 لڑکے ہلاک ہو گئے تھے۔ وسطی پنجاب کے لگ بھگ ہر دوسرے گاؤں میں ایسے واقعات اکثر سننے کو ملتے ہیں۔
‘سوا سال میں ایک ہزار انسانی اسمگلرز و ایجنٹ گرفتارہوئے: ایف آئی اے
وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کوشاں ہے۔ اس ادارے نے انسانی اسمگلنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے گوجرانوالہ اور گجرات کے اضلاع میں دو دفاتر قائم کیے ہیں جہاں ایڈیشنل ڈائریکٹر اور ڈپٹی ڈائریکٹر عہدہ کے افسران انچارج ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ دونوں اضلاع میں ہر ماہ متاثرین کی جانب سے سینکڑوں کی تعداد میں درخواستیں داخل کی جاتی ہیں۔
حکام کے مطابق ایف آئی اے کے انسداد انسانی سمگلرز اینڈ ٹریفکنگ سرکل نے ملک بھر میں جنوری 2022 سے اب تک لگ بھگ ایک ہزار انسانی سمگلروں اور ان کے ایجنٹوں کو گرفتار کیا ہے اور اس عرصہ کے دوران انسانی سمگلروں کے خلاف تقریباً 2700 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔