رسائی کے لنکس

'آپ سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ ہم کشمیر پر کوئی ڈیل کر لیں گے'


ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور۔(فائل فوٹو)
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور۔(فائل فوٹو)

پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ ’’یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ کشمیر پر ہم کوئی ڈیل کر لیں گے۔ کشمیر پر سمجھوتہ ہماری لاشوں سے گزر کر ہی ہو سکتا ہے‘‘۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ’’کشمیر ہماری رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔ اگر 72 سال سے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے تو اب کیسے ہٹ سکتے ہیں‘‘۔

آصف غفور کا کہنا تھا کہ اس خطے میں عالمی طاقتوں کے مفادات ہیں، ’’جس کے جو بھی مقاصد ہیں وہ پاکستان کو نظرانداز کر کے پورے نہیں ہو سکتے‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو علم ہے کہ پاکستانی فوج مغربی سرحد سے فارغ ہو رہی ہے۔ اس لیے وہ خطے میں جنگ کا بیج بو رہا ہے۔ بھارت چاہتا ہے کہ کوئی ایسا کام کرے جس کا پاکستان جواب نہ دے سکے۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ افغان سرحد کے ساتھ باڑ لگائی جا رہی ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ افغان سرحد پر امن ہو گیا تو فوج بھارتی سرحد پر بڑھائی جائے گی۔ ان کے بقول، کوئی بھی ملک اور فوج اپنا منصوبہ پریس کانفرنس یا جلسے میں نہیں بتاتے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستانی فوج اور عوام کی سانسیں کشمیریوں کے ساتھ چلتی ہیں۔ ہم کشمیریوں کے ساتھ تھے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے‘‘۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بدقسمی سے عالمی قوتوں نے مسئلہ کشمیر میں دلچسپی نہیں لی۔

انہوں نے کہا کہ ’’بھارت کچھ بھی کرنے سے پہلے 27 فروری کو یاد رکھے۔ ہمارے اسکواڈرن لیڈر حسن صدیقی اور ونگ کمانڈر نعمان جیسے شاہین تیار بیٹھے ہیں‘‘۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’’اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں محض پروپیگینڈہ ہیں‘‘۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ دو ایٹمی قوتوں کے درمیان جنگ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے آصف غفور کا کہنا تھا کہ ’’بھارتی وزیر اعظم نہرو کے نظریے کو دفن کر کے ہٹلر کے نظریے پر گامزن ہیں‘‘۔

بھارت کے وزیر داخلہ کے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق سوال پر میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ’’ہماری ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق نو فرسٹ یوز کی کوئی پالیسی نہیں ہے‘‘۔

آرمی چیف توسیع نہیں چاہتے تھے'

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ توسیع نہیں لینا چاہتے تھے۔ ’’لیکن ہم نے انہیں قائل کیا‘‘۔

میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ملک کے معروضی حالات اس بات کے متقاضی تھے کہ آرمی چیف کو توسیع دی جاتی۔

خیال رہے کہ چند روز قبل پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کی توسیع دے دی تھی۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت رواں سال نومبر میں ختم ہو رہی تھی۔ تاہم، اب وہ 2022 تک ملک کے آرمی چیف رہیں گے۔

افغانستان میں امن

میجر جنرل آصف غفور نےافغانستان پر بات کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان اقوام عالم کےمفادات کا جنگی میدان رہا ہے۔ افغانستان نےگزشتہ 40سال میں جنگ، شہادوں کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، افغانستان سرحد کیساتھ ہماری فوج کی بڑی تعداد تعینات ہے۔ پاکستان کی کوششوں کی وجہ سے افغانستان میں امن کی فضا بنتی جا رہی ہے۔ پاکستان نے افغان سرحد کیساتھ دہشت گردوں کا داخلہ بند کرایا، بھارت سوچ رہا ہے اگر پاکستانی فوج افغان سرحد سے فارغ ہوگئی تو ہمارے لیے خطرہ ہوگا۔

اسامہ بن لادن

ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ اسامہ بن لادن سے متعلق پہلی کڑی پاکستان نے تلاش کی تھی، دو افراد کے درمیان پہلی کال پاکستان نے ٹریس کی تھی۔ پاکستان نے ہر موقع پر امریکا کیساتھ معلومات کا تبادلہ کیا۔ ایک وقت پر امریکا نے پاکستان کیساتھ اسامہ سے متعلق تعاون روک دیا۔ امریکا نے پاکستان کو بتائے بغیر ایبٹ آباد آپریشن کیا۔

بھارت کو برداشت کرنا ہوگا

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشمیریوں پر مبینہ مظالم کے حوالے سے پاکستان فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’جتنا کشمیری برداشت کر رہے ہیں بھارت کو اس سے دگنا برداشت کرنا پڑیگا۔ بعض جنگیں اپنی خواہش پر لڑی جاتی ہیں۔ بعض جنگیں ناگزیر ہوتی ہیں۔ جب لڑنے کا وقت آیا تو عزت کیلئے لڑیں گے۔ پیسے نہیں عزت اور وقار کیلئےلڑنا ہے۔ خالی ہاتھوں سے بھی لڑنا پڑا تو لڑیں گے۔‘‘

ملکی معیشت

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے ملکی معیشت پر بھی بات کی اور کہا کہ معیشت ایک سال میں خراب نہیں ہوئی۔ معیشت خراب ہونے میں ماضی کے غلط فیصلےشامل ہیں۔ ملکی معاشی ضروریات کیلئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت 52 ارب ڈالر میں سے29 ارب ڈالر صوبوں کو جاتے ہیں۔ 23 ارب میں سے19 ارب سود اور قرضوں کی مد میں جاتے ہیں۔ دفاع، پی ایس ڈی پی اور دیگر ضروریات کیلئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔ ماضی میں کینسر زدہ معیشت کا علاج پیراسیٹامول سے کیا جا رہا تھا۔ لیکن، معیشت کی کیموتھراپی کرنا پڑے گی جس کے اثرات بھی ہونگے۔

XS
SM
MD
LG