پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی آڈٹ نہ کروا کر توہین عدالت کر رہا ہے۔ لگتا ہے کہ ڈی ایچ اے حکومت کے اندر حکومت ہے۔
سپریم کورٹ میں ڈی ایچ اے کراچی کے آڈٹ سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے ڈی ایچ اے کے آڈٹ کا حکم دیا تھا۔ آڈٹ نہ کروا کر ڈی ایچ اے توہین عدالت کر رہا ہے۔
جسٹس فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ڈی ایچ اے کو آڈٹ میں مسئلہ کیا ہے۔ کیا عدالت حکومت کو قانون پڑھائے گی؟ حکومت لکھ کر دے دے کہ اسے قانون سمجھ نہیں آتا۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا عدالت حکومت کی متبادل ہے؟ ہر کام اور حکم عدالت کو ہی کیوں دینا پڑتا ہے؟ کیا حکومت سپریم کورٹ کے حوالے کر دی گئی ہے؟ لگتا ہے ڈی ایچ اے حکومت کے اندر حکومت ہے۔
ڈی ایچ اے کے وکیل نے تیاری کے لئے عدالت سے وقت مانگ لیا جس پر کیس کی سماعت دو ہفتے کے لئے ملتوی کر دی گئی۔
2015 میں ایک کیس کی سماعت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس جواد ایس خواجہ ،جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس دوست محمد پر مشتمل بینچ نے ڈی ایچ اے کراچی اور لاہور کے آڈٹ کا حکم دیا تھا۔ عدالت کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آڈیٹر جنرل، ڈی ایچ اے کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کر سکتا ہے۔ لیکن چار سال گزرنے کے بعد بھی ڈی ایچ اے نے اپنا آڈٹ نہیں کروایا اور عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں کیا جا رہا۔
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی پر اعتراضات پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئے بلکہ ماضی میں بھی مختلف کیسز میں ان کا حوالہ دیا جاتا رہا ہے۔ لاہور میں ڈی ایچ اے سٹی پراجیکٹ میں لوگوں کے ساتھ کروڑوں روپے کا فراڈ کیا گیا اور ان سے لی گئی رقوم بھی واپس نہیں کی گئیں، جس پر اس وقت کے چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ یتیموں اور بیواؤں کے پیسے لوٹے گئے ہیں۔ اس کیس میں 11 ہزار 7 سو متاثرین سے رقوم لی گئی تھیں لیکن انہیں پلاٹ نہیں دیے گئے۔ جبکہ اس کیس میں سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کے بھائی کامران کیانی کا نام بھی سامنے آیا تھا جس کے متعلق عدالت کو بتایا گیا کہ وہ اس منصوبے کی تمام رقم کے ساتھ امریکہ فرار ہو گئے ہیں۔
ڈی ایچ اے پاکستان میں تعمیرات کے شعبے میں لگژری رہائش کے لیے مشہور ہے، اصل میں یہ اتھارٹی فوجی افسران کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں پلاٹس اور رہائش فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی تھی لیکن کمرشل ازم بڑھ جانے کے باعث اس میں پرائیویٹ سیکٹر بھی شامل ہو گیا اور اب اس اتھارٹی میں پرائیویٹ افراد اربوں روپے کی پراپرٹیز خرید و فروخت کرتے ہیں۔
اربوں روپے کا کاروبار ہونے کے باوجود یہ ادارہ اب تک سویلین اداروں میں سے کسی کو جوابدہ نہیں ہے اور نہ ہی ان کا آڈٹ کیا جاتا ہے۔