پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی سے تقریبا 40 کلومیٹر دور ڈیفنس سٹی کراچی میں ترقیاتی کام زور و شور سے جاری ہے۔ تقریبا 19 ہزار ایکڑ پر محیط یہ ہاوسنگ سوسائٹی جس علاقے میں ہے وہ کراچی ڈویژن کے ضلع ملیر کے گڈاپ ٹاون میں آتا ہے۔ منصوبے کے آغاز سے قبل اس زمین کے بڑے حصے پر آباد لوگ کھیتی باڑی کر کے اپنا گزر بسر کرتے تھے۔
سندھ بورڈ آف ریونیو نے ڈی ایچ اے کو یہ زمین ایک لاکھ دس ہزار روہے فی ایکڑ کے حساب سے رہائشی مقاصد کے لئے الاٹ کی۔ یہ زمین فلاحی مقاصد کے لئے نہیں بلکہ فوج کے زیرِ نگران تعمیراتی ادارے کو دی گئی اور اچھنبے کی بات یہ ہے کہ مارکیٹ ریٹ سے انتہائی کم داموں پر زمین الاٹ کی گئی۔ اس کے ساتھ زرعی زمینوں کو رہائشی اور کاروباری مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی الگ فیس بھی ادا نہیں کی گئی جو کہ قانونی طور پر ضروری ہے۔
ڈیفینس سٹی کراچی کو الاٹ کی گئی زمین اس سے قبل 150 سے زائد کاشتکاروں کو زرعی مقاصد کے لئے لیز پر دی گئی تھی جہاں مختلف لوگ کھیتی باڑی اور مویشی پال کر اپنا گزر بسر کرتے تھے۔ لیکن 2008 میں بغیر کوئی ٹھوس وجہ بتائے حکومت سندھ نے ان کاشتکاروں کی لیز منسوخ کر دی۔ قانون کے مطابق اس لیز کی منسوخی کا اختیار حکومت کے پاس تو ہے لیکن یہ لیز صرف اسی صورت میں منسوخ کی جا سکتی ہے جب الاٹیز زمین کو اُس مقصد کے لئے استعمال نہ کریں جس مقصد کے لئے زمین الاٹ کی گئی تھی۔
قانون کے مطابق ایسی لیز کو منسوخ کرنے سے قبل الاٹیز کو باقاعدہ نوٹس جاری کیا جانا ضروری ہے، لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ زمینوں سے متعلق قوانین میں حکومت کو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ وہ متعلقہ زمین کو عوامی مقاصد میں استعمال کے لئے کسی بھی وقت سابقہ لیز کو کینسل کر سکتی ہے۔ لیکن، حیرت انگیز طور پر یہ زمین قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ڈی ایچ اے کو الاٹ کی گئی۔
قانون میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اگر زمین کسی ایسی ہاوسنگ اسکیم کو جاری کی جانی ہے جہاں غریب اور متوسط طبقے کے لئے مکانات تعمیر کئے جانے ہیں تو حکومت ایسے منصوبے کے لئے مارکیٹ ریٹ سے کم قیمت پر زمین الاٹ کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔ لیکن یہاں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ زمین بھی مارکیٹ ریٹس سے ارزاں داموں پر الاٹ کی گئی جبکہ ہاوسنگ اسکیم بھی غریب طبقے کی پہنچ سے ہی نہیں بلکہ متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی کوسوں دور ہے۔
ذرائع کے مطابق 19 ہزار ایکڑ اراضی کی قیمت مارکیٹ ریٹ کے مطابق تقریبا 200 ارب روپے کی بنتی ہے لیکن سندھ حکومت نے یہی زمین صرف تین ارب روپے میں ڈیفنس اتھارٹی کو بیچ دی۔
ایک اور اعتراض جو کہ ڈیفنس سٹی کراچی پر عائد کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہاوسنگ اسکیم ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی حدود میں آتی ہے لیکن ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے اس بارے میں کوئی این او سی حاصل کیا گیا اور نہ ہی وہاں جاری تعمیرات کا کوئی نقشہ منظور کرانے کی زحمت گوارا کی گئی۔ ڈیفنس سٹی کراچی کی یہ زمین اب تک حکومت کی جانب سے کنٹونمنٹ ایریا بھی قرار نہیں دی گئی اور ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی، ڈی ایچ اے سٹی کراچی پر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 1.5 ارب روپے کے واجبات کا دعویٰ رکھتی ہے۔
اور مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ 19 ہزار سے زائد رقبے پر محیط ڈیفنس سٹی کراچی کے لے آوٹ پلان میں ایک ایکڑ زمین بھی فوجی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کی جا رہی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر زمین کو فوجی مقاصد کے لئے استعمال نہیں کیا جانا ہے تو پھر کس بنیاد پر ارزاں نرخوں پر سندھ حکومت نے زمین ڈیفنس ہاوسنگ اتھارٹی کے نام کی؟
ڈیفنس سٹی کے لئے زمین انتہائی ارزاں داموں حاصل کرنے پر قومی احتساب بیورو نے تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔ لیکن یہ تحقیقات اب تک کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچیں۔
اس بارے میں ڈی ایچ آے کا مؤقف جاننے کیلئے وائس آف امریکہ نے ڈی ایچ اے کے پبلک ریلیشنز افسر میجر اورنگزیب سے رابطہ کیا تو اُنہوں نے کہا کہ تمام سوالات لکھ کر اُنہیں ارسال کئے جائیں تاکہ وہ اپنے اعلیٰ افسران سے جواب حاصل کر کے ہمیں بھجوا سکیں۔ ہم نے سوال بھیج دئے جن کے جواب میں میجر اورنگزیب نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر سے رابطہ کریں۔ آئی ایس پی آر سے کوششوں کے باوجود ہمارا رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔