اگر خراب ملکی حالات کے باعث پاکستان کو کرکٹ ورلڈ کپ 2011ء کی میزبانی سے محروم نہ کیا جاتا تو آج ڈھاکہ کے "بنگا بندھو اسٹیڈیم " میں ہونے والی ایونٹ کی افتتاحی تقریب میں دیگر شریک میزبانوں بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ہمراہ پاکستانی فن کار بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے نظر آتے۔
رنگ و نور سے بھرپور اس تقریب کو جمعرات کی شام اپنی ٹی وی اسکرینز پر ڈھاکہ سے براہ ِراست دیکھتے ہوئے اکثر پاکستانی شائقین یقیناً اس "احساسِ محرومی" کا شکار ہوئے ہوں گے اور کئی نے زیرِ لب اس خواہش کا اظہار بھی کیا ہوگا کہ کاش پاکستان یہ ورلڈ کپ جیت کے اس محرومی کا بدلہ چکادے۔
لیکن اس وقت نہ صرف پاکستانی ناظرین بلکہ اسٹیڈیم میں موجود 27 ہزار سے زائد شائقین بھی حیران رہ گئے جب برِصغیر کی معروف گلوکارہ رونا لیلیٰ نے اپنی پرفارمنس کیلئے منتخب کردہ اپنے دوسرے گانے کا آغاز کیا۔
رونا لیلیٰ نے ورلڈ کپ کی افتتاحی تقریب میں پہلا گانا اپنی مادری زبان بنگالی میں گایا لیکن اس کے بعد انہوں نے اپنی وجہِ شہرت بننے والا معروف پاکستانی گیت "دما دم مست قلندر" گنگنا کر ایک بار پھر پاکستانی قوم کے دل جیت لیے۔ اس موقع پر میدان میں موجود ہزاروں تماشائی بھی جھوم اٹھے اور انہوں نے رونا کو خوب داد دی۔
جو لوگ رونا لیلیٰ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ان کی جانب سے ورلڈ کپ کی اس افتتاحی تقریب میں پاکستانی گانے کے انتخاب کو اتفاق نہیں قرار دیا جاسکتابلکہ بنگلہ دیش کی سرزمین پر یہ گیت گا کر رونا نے اپنی سابق مادرِ وطن سے والہانہ محبت کا ایک بار پھر مظاہرہ کیا ہے۔
17، نومبر 1952 کو اس وقت کے مشرقی پاکستان کے ضلع سلہٹ میں پیداہونے والی رونا لیلیٰ نے 60 کی دہائی میں اپنی زندگی کے ابتدائی ایام کراچی کے علاقے فیڈرل بی ایریا میں گزارے جہاں وہ کلاسیکی موسیقی کے استاد قادر المعروف پیا رنگ کی شاگرد رہیں۔ بعد ازاں انہوں نے استاد حبیب الدین خان سے بھی موسیقی کے اسرار و رموز سیکھے۔
معروف پاکستانی پلے بیک سنگر احمد رشدی کی مداح رونا نے اپنا پہلا فلمی گیت پاکستانی فلم "جگنو" کیلئے بارہ سال کی عمر میں ریکارڈ کرایا تھا۔ بعد ازاں وہ پاکستان ٹیلی ویژن کراچی مرکز سے نشر ہونے والے "ضیاء محی الدین شو" میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتی رہیں۔
70ء کی دہائی میں پاکستان فلم انڈسٹری میں رونا کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا اور اس عرصہ کے دوران انہوں نے "امراؤ جانِ ادا" سمیت کئی مشہورِ زمانہ فلموں میں پسِ پردہ آواز کا جادو جگایا۔ اسی دور میں انہیں اپنے آئیڈیل احمد رشدی کے ساتھ کئی دو گانے، گانے کا موقع ملا اور ان دونوں فن کاروں کی جوڑی بہت مشہور ہوئی۔
1971ء میں پاکستان کی تقسیم اور بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد رونا اپنے آبائی وطن منتقل ہوگئیں اور وہاں انہوں نے بالی ووڈ اور بنگلہ دیشی فلموں میں گلوکاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ تاہم اپنے سابق وطن سے ان کی محبت میں کوئی فرق نہیں آیا اور وہ آج بھی اپنے گلوکاری کے کامیاب کیریئر کا سہرا اپنے پاکستانی استادوں اور فلم و ٹی وی انڈسٹری کی اس وقت کی ان اہم شخصیات کے سر باندھتی ہیں جنہوں نے رونا کو ان کی پہچان دی۔
مشہورِ زمانہ گیت "دما دم مست قلندر" در اصل سب سے پہلے رونا لیلیٰ نے ہی اپنی آواز میں ریکارڈ کرایا تھا اور اسی گیت سے ان کی شہرت کے سفر کا باقاعدہ آغاز ہوا تھا۔ برِصغیر پاک و ہند میں انتہائی پسند کیے جانے والے اس صوفی گیت کو گزشتہ چار دہائیوں میں سینکڑوں گلوکار گا چکے ہیں۔
کرکٹ ورلڈ کپ 2011ء کی افتتاحی تقریب میں رونا نے یہ گیت گنگنا کر ڈھاکہ کے 'بنگا بندھو میدان' میں ایونٹ کی میزبانی سے محروم کیے جانے والے پاکستان کی "ثقافتی نمائندگی" کی۔ رونا لیلیٰ نے اس یادگار موقع پہ اپنی پرفارمنس کیلئے "دما دم مست قلندر" کا انتخاب کرکے پاکستانیوں کے دلوں میں اپنی جگہ اور بھی مستحکم کرلی ہے۔