اقوام متحدہ نے منگل کے روز شام کے شہر حلب میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے، جہاں تشدد کی کارروائیوں کے بعد زیریں ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
عالمی ادارے نے منگل کے روز بتایا ہے کہ 20 لاکھ مکینوں کو پینے کا پانی اور بجلی میسر نہیں۔ ایسے میں جب شام کے باغی حلب پر اسد کا سرکاری کنٹرول ختم کرانے کی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں، پیر کے روز طبی کارکنان نے اقوام متحدہ کے سفارت کاروں کو بتایا کہ شام کا یہ سب سے بڑا شہر جہنم بنا ہوا ہے۔
ڈاکٹر ظہیر شلول کا تعلق شکاگو میں قائم ’سیریئن امریکن میڈیکل سوسائٹی (ایس اے ایم ایس) سے ہے۔ اُنھوں نے سلامتی کونسل کے ارکان کو بتایا کہ ’’حلب میں کم سن بچوں کو دودھ دستیاب نہیں، معالجوں کو ادویات، خون، ٹانکے، ’وینٹی لیٹرز‘ میسر نہیں؛ جب کہ لوگوں کو روٹی، گوشت یا کھانا پکانے کے لیے گیس موجود نہیں ہے‘‘۔
ڈاکٹر ثمر عطار کا تعلق بھی ’ایس اے ایم ایس‘ سے ہے۔ اُنھوں نے کونسل کے ارکان کو بچوں کی تصاویر دکھائیں جن میں کٹی ہوئی ٹانگیں اور پھٹی ہوئی کھوپڑی والے زخمیوں کو دکھایا گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ حلب کے اسپتال خندقیں لگتی ہیں جن کے آس پاس مٹی کی تھیلیاں اور بالٹیاں لٹکی ہوئی ہیں، تاکہ بمباری کی صورت میں کام آ سکیں، جو آئے روز کا معمول ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ جس اسپتال میں وہ کام کرتے ہیں، مریضوں کا علاج تہ خانے میں کیا جاتا ہے، کیونکہ اوپر والا طبقہ حملے کی زد میں رہتا ہے۔
عطار کے بقول، ’’آپ یہاں زندگی گزارتے ہو۔ خونریزی اور قتل کے لیے بھی کچھ وقفہ ہونا چاہیئے‘‘۔
اقدام نہ اٹھانے پر، اُنھوں نے کونسل کو لتاڑا اور مطالبہ کیا کہ اُسے مزید کام کرنا ہوگا۔
بقول اُن کے، ’’اس ادارے کے پاس یہ اختیار ہے کہ سارے معاملے کا مداوا کرے۔ ادارے میں یہ طاقت ہے کہ زندگی بچانے اور عضو سلامت رکھنے کا بندوبست کرے اس پیمانے پر جو ڈاکٹروں کے بس کی بات نہیں ‘‘۔
پہلے سے ریکارڈ کی گئی وڈیو کے ذریعے، ’سیریئن وائٹ ہیلمیٹس‘ نام کے شہری دفاع کے دستے کا ایک نمائندہ شریک ہوا، جس وقت شدید گولہ باری ہو رہی تھی اور بڑے دہانے والے ہتھیاروں سے گولیاں چلائی جارہی تھیں۔ خالد جراح نے گذشتہ ماہ حلب میں 250 افراد سے گفتگو کی تھی، جو اب فوت ہوچکے ہیں؛ جب کہ وائٹ ہیلمیٹس کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، چونکہ وہ زخمیوں کی مدد کی کوشش کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ حلب کے محاصرے کے بارے میں بین الاقوامی خاموشی ’’شرمناک ‘‘ ہے۔
عطار کے بقول، حلب میں کچھ ایسے علاقے ہیں جو قیامت کا سماں پیش کرتے ہیں‘‘۔
شلول نے کونسل کے ارکان کو بتایا کہ اُن کی قرارداد جس میں انسانی بنیادوں پر سرحدون کی قید کو ختم کرنے کے لیے کہا گیا تھا، بہت ہی معاون ثابت ہوئی۔ اُن کے الفاظ میں، ’’یہی وجہ ہے کہ حلب میں اب تک زندگی کی دمق باقی ہے‘‘۔
تاہم، شلول نے انسانی بنیادوں پر محصور لوگوں کے انخلا کے روسی منصوبے سے متنبہ کیا جس کے تحت 400 سولینز اور 90 باغیوں کو شہر چھوڑنے کے لیے کہا گیا ہے، اُس پر عمل درآمد زیادہ مشکل امر ہے۔