پاکستان کی اوپن مارکیٹ میں روپے کی قدر میں چند ماہ کے استحکام کے بعد ایک بار پھر ڈالر کی قدر میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ فاریکس ڈیلرز کے مطابق دو روز میں انٹر بینک میں ڈالر تین روپے 95 پیسے مہنگا ہو چکا ہے۔
جمعے کو کاروباری ہفتے کے اختتام پر اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر 154 روپے 25 پیسے میں فروخت ہو رہا تھا جو کہ پیر کو 157 روپے 70 پیسے تک پہنچ گیا۔
منگل کو بھی روپے کی قدر میں مزید کمی ہوئی اور کاروباری ہفتے کے دوسرے روز ڈالر کی قیمت میں 50 پیسے اضافہ ہوا. منگل کو کاروبار کے احتتام پر اوپن مارکیٹ میں ڈالر 158 روپے 20 پیسے پر فروخت ہو رہا تھا۔
خیال رہے کہ گزشتہ سال جون میں ڈالر 164 روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچا تھا جس کے بعد رواں سال کے آغاز سے ڈالر 155 روپے کے آس پاس فروخت ہو رہا تھا۔
معیشت کے ماہرین اسٹاک مارکیٹ میں مندی اور عالمی معیشت میں سست روی کے رجحان کو روپے کی قدر میں کمی کی بڑی وجہ قرار دے رہے ہیں۔
پاکستان فارہکس ایسوسی ایشن کے صدر ملک بوستان کہتے ہیں کہ اسٹاک مارکیٹ مین مندی کے باعث سرمایہ کاروں نے ڈالر کی خریداری کی ہے جس کے باعث اس کی قیمت میں اضافہ ہوا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاروں کے عدم اعتماد کے بعد مارکیٹ میں شدید مندی دیکھی گئی اور سرمایہ کاروں نے ڈالر کو بہتر سرمایہ کاری کے طور پر دیکھا ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ کرونا وائرس کے باعث عالمی معیشت کی سست روی کے باعث روپے پر دباؤ آئندہ دنوں میں بھی برقرار رہ سکتا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کو اپنے پہلے مالی سال میں ڈالر کی قیمت میں غیر معمولی اضافے کے باعث خاصی تنقید کا سامنا تھا۔ روپے کی قدر کم ہونے سے صرف جون کے مہینے میں ملکی قرضوں کی مالیت میں 1000 ارب روپے کا اضافہ ہوا تھا۔
ماہر معیشت ثاقب شیرانی کہتے ہیں کہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی کے وجہ ایک وقت میں تیل کی خریداری کی واجب الادا رقم کی ادئیگی، قرض کی قسط اور بیرونی سرمایہ کاروں کا مارکیٹ سے پیسہ نکالنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بینکنگ ذرائع کے مطابق گزشتہ دو روز میں چار سو ملین ڈالر کے قریب غیر ملکی سرمایہ مارکیٹ سے نکالا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان بیرونی سرمایہ کاری واپس لانے میں کامیاب رہتا ہے تو روپے کی قدر میں جلد استحکام آ سکتا ہے۔