ایک ایسے وقت میں جب کرونا وائرس کی نئی اقسام نے سائنس دانوں کے لیے مزید موثر ویکسین بنانے کا چیلنچ لا کھڑا کیا ہے، دنیا میں کووڈ نائنٹین کیسز میں مسلسل پانچویں ہفتے کمی آئی ہے۔
صحت عامہ کے ماہرین کے لیے وائرس کے خلاف جاری جنگ میں ایک اہم پیش رفت یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں دنیا میں سب سے زیاد دو متاثرہ ممالک امریکہ اور بھارت میں بھی عالمی وبا کے نئے کیسز میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے۔
اس کے علاوہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں بھی نئے کیسز کی تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ ہفتے پچھلے پانچ ماہ میں اس متعدی مرض کے کیسز کم ترین سطح پر ریکارڈ کیے گئے۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروس گیبراسس نے کہا ہے کہ اس موذی مرض کے کیسز میں اس سال تقریباً 50 فیصد کمی آئی ہے اور اب فیصلہ کن بات یہ ہو گی کہ دنیا عالمی وبا کے خاتمے کے لیے کیا حکمت عملی اپناتی ہے اور اس پر کہاں تک عمل کرتی ہے۔
امریکہ میں کئی ماہ کے بعد ہفتہ وار اوسطاً کیسز ایک لاکھ سے کم رہے ہیں۔ نومبر 2020 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ میں گزشتہ جمعے اور ہفتے کو کیسز میں اوسطاً کمی ایک لاکھ سے نچلی سطح پر ریکارڑ کی گئی۔
اس سے قبل پچھلے سال دسمبر میں موسم سرما کی زور پکڑتی لہر کے دوران کووڈ نائنٹین کے کیسز کی ہفتہ وار اوسط دو لاکھ سے زیادہ رہی،جب کہ امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعداد و شمار کے مطابق یہ تعداد اس سال کے پہلے مہینے میں بڑھ کر تقریباً دو لاکھ 50 ہزار تک جا پہنچی تھی۔
ماہرین اس کمی کو ایک امید افزا رجحان قرار دیتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ابھی عالمی وبا نے امریکہ کو بہت زیادہ متاثر کر رکھا ہے۔
امریکہ کے امراض سے بچاؤ کے محکمے سی ڈی سی کی ڈائرکٹر روچیل ویلینسکی نے این بی سی نیوز چینل کو بتایا کہ امریکہ میں ابھی بھی نئے یومیہ کیسز کی شرح ایک لاکھ سے زیادہ ہے اور 1500 سے 3500 کے درمیان اموات ہو رہی ہیں۔ اور پچھلے سال گرمیوں کے مقابلے میں یہ شرح ڈھائی گنا زیادہ ہے۔
گزشتہ سال کے اوائل میں کرونا وبا کے امریکہ میں پھوٹنے سے اب تک ملک میں دو کروڑ 70 لاکھ سے زائد افراد اس سے متاثر ہو چکے ہیں جب کہ پانچ لاکھ کے قریب لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں سب سے بڑی آبادی کے ملک بھارت میں کرونا وائرس کے نئے کیسز میں ڈرامائی حد تک کمی رپورٹ کی جا رہی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے منگل کو خبر دی کہ حکام کے مطابق اب ملک میں یومیہ صرف گیارہ ہزار نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔
بھارت میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے عروج کے دنوں میں، کچھ ماہ قبل ہر روز ایک لاکھ کیسز رپورٹ کیے جا رہے تھے۔ اے پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تیزی سے کم ہونے والی اس شرح نے ماہرین کو حیران کر دیا ہے۔ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے ملک کے کچھ حصوں میں اس متعدی وبا کے خلاف بڑے پیمانے پر عوام میں قوت مدافعت یا ہرڈ امیونیٹی پیدا ہو گئی ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ لوگوں میں اس کے خلاف پہلے ہی سے قوت مدافعت موجود ہے۔
حکومتی اہلکار دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس کمی کی وجہ کرونا سے بچاؤ کے لیے چہرے پر ماسک پہننے جیسی پابندیوں پر سختی سے کار بند رہنا ہے۔
جنوبی ایشیا کے دوسرے بڑے ملک پاکستان میں مسلسل دوسرے دن ایک ہزار سے کم کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ منگل کے روز دستیاب اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 14 اور 15 تاریخ کو بالترتیب 837 اور 958 نئے کیسز سامنے آئے۔
اکتوبر کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں یومیہ کیسز ایک ہزار کی سطح سے نیچے آئے ہیں۔ ملک میں اب تک پانچ لاکھ 64 ہزار سے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جب کہ 12 ہزار 380 افراد اس عالمی وبا کے باعث اپنی جانیں کھو چکے ہیں۔
اس سارے حوصلہ افزا منظر کے باوجود صحت عامہ کے حکام کہتے ہیں کہ کسی ملک کو بھی اس عالمی وبا پر قابو پانے کی کوششوں میں کوئی کمی نہیں کرنا چاہیے۔
عالمی ادارہ صحت کے رہنما ٹیڈروس گیبراسس نے اس کرونا وائرس کی کمی کے رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آگ میں کمی آئی ہے لیکن یہ ابھی پوری طرح بجھی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس موقع پر دنیا اس آگ سے نمٹنے کی کوششوں کو ترک کر دیتی ہے تو یہ بھڑکتی ہوئی واپس آ سکتی ہے۔
اس عالمی وبا پر مکمل قابو پانے کے سلسلے میں انہوں نے کہا کہ اس کا بہت حد تک دار و مدار ویکسین کی مساوی دستیابی پر ہو گا اور یہ کہ وہ اس ہفتے ہونے والے جی سیون ترقی یافتہ ملکوں کے اجلاس میں اس بات پر زور دیں گے۔