اقوامِ متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارے 'یونیسیف' کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایک ارب 30 کروڑ اسکول جانے والے طلبہ کے گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے۔ جب کہ پاکستان میں لگ بھگ چار کروڑ بچے متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان میں متاثر ہونے والے بچوں سے متعلق کہا گیا کہ ان میں بہت کم بچوں کی تعداد ایسی ہے جو آن لائن تعلیمی سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق متاثر ہونے والے طلبہ میں سب سے بڑی تعداد جنوبی ایشیا کے بچوں کی ہے۔ جہاں 44 کروڑ 90 لاکھ بچوں یعنی 88 فی صد کے پاس گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں ہے جس ہونے کی وجہ سے کرونا وبا کے دوران آن لائن تعلیم کا حصول لگ بھگ نہ ممکن ہے۔
یونیسیف کے مطابق دنیا بھر کے محض 33 فی صد بچوں کے پاس ہی انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔
جنوبی ایشیا میں اسکول جانے والے غریب ترین آبادی کے طلبہ جن کی عمریں 3 سے 17 سال کے درمیان ہے۔ ان کی محض دو فی صد کو ہی انٹرنیٹ کی فراہمی میسر ہے۔ جب کہ غریب ترین آبادی کے 15 سے 24 سال کے نوجوانوں میں یہ شرح بھی محض 3 فی صد ہے۔
اسی طرح اس خطے کے متمول گھرانوں کے اسکول جانے والے بچوں کو بھی 40 فی صد اور نوجوانوں کی 47 فی صد تعداد کو انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ تاہم یہ شرح مغربی اور وسطی افریقہ کے ممالک میں اور بھی کم ہے۔
اسی طرح دنیا بھر میں اگر تعلیم حاصل کرنے والوں کی عمر 25 سال تک بڑھا دی جائیں تو دو ارب 20 کروڑ بچوں اور نوجوانوں کے پاس وبا کے دور میں تعلیم جاری رکھنے کے لیے گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت دستیاب نہیں۔ یہ تعداد دنیا میں نوجوانوں کی تعداد کے 65 فی صد کے برابر بنتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق یہ اعداد و شمار انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم کے حصول میں عدم مساوات کو کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق انٹرنیٹ تک محدود رسائی سے عدم مساوات مزید گہری ہو رہی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق طلبہ کے لیے گھروں میں انٹرنیٹ کی دستیابی کا انحصار زیادہ تر اس بات پر ہے کہ یہ بچے کن ممالک اور کن علاقوں میں رہتے ہیں اور ان کے گھریلو معاشی حالات کس قدر بہتر ہیں۔
رپورٹ اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہے کہ جن ممالک میں معاشی ترقی زیادہ ہے۔ وہاں انٹرنیٹ کی رسائی قدرے آسان ہے۔
دنیا میں شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ تک رسائی کی شرح 16 فی صد سے کم بتائی جاتی ہے۔ جب کہ غریب علاقوں کے بچوں اور نوجوانوں کو گھروں پر انٹرنیٹ کی رسائی انہی ممالک کے امیر گھرانوں کے بچوں سے 42 فی صد سے کم بتائی جاتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک جانب دنیا بھر میں کرونا وبا کے دوران تعلیمی نظام کو ہائبرڈ ماڈل اور فاصلاتی تعلیم پر منتقل کرنے پر سرمایہ خرچ کیا جا رہا ہے۔ تاہم انٹرنیٹ کی عدم دستیابی بچوں اور نوجوانوں کو مؤثر اور بہتر طریقۂ تعلیم میں ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
پاکستان میں چار کروڑ بچے متاثر
پاکستان میں اسکول بند ہونے سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد چار کروڑ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ جو اسکول بند ہونے کی وجہ سے گھروں پر ہی رہنے میں مجبور ہیں۔
تاہم بہت کم ایسی تعداد ہے جو آن لائن تدریس کے ذریعے اپنا تعلیمی سلسلہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ خاص طور پر دیہی علاقوں اور دور دراز علاقوں کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق شہری علاقوں میں بھی جامعات کی حد تک تو یہ شرح قابل ستائش ہے لیکن اسکولوں اور کالجز کی سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے لیے دیہی علاقوں کے ساتھ شہری علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی گھروں تک رسائی کم ہے۔
ماہرین کے بقول خاص طور پر وہ بچے جو سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کے پاس گھروں میں انٹرنیٹ نہ ہونے کی شرح اور بھی زیادہ ہے۔ اس وجہ سے ان کے لیے آن لائن طریقے سے تعلیم کا حصول تقریباً نہ ممکن ہے۔
'پاکستان اب تک انٹرنیٹ کی دستیابی کے چیلنج ہی سے نبرد آزما ہے'
پاکستان میں ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ماہر اور ‘بائٹس فار آل’ کے کنٹری ڈائریکٹر شہزاد احمد کے مطابق بچوں کو تعلیم کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی نہ ہونے کی بنیادی وجہ ملک میں انٹرنیٹ کی فراہمی محدود ہونا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بڑے شہری علاقوں کو چھوڑ کر پنجاب، سندھ، گلگت بلتستان اور حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی فراہمی نہیں ہے یا پھر انتہائی محدود ہے۔ جس سے وہاں تعلیم کا حصول بے حد مشکل ہے۔ بلوچستان میں تو کئی شہری علاقے بھی انٹرنیٹ کی آسان رسائی سے قدرے دور ہیں۔
شہزاد احمد کے مطابق عموماََ یہ کہا جاتا ہے کہ ایسی ترقی طلب اور رسد کی ضرورت سے ہوتی ہے لیکن جب بچوں کی تعلیم، صحت، روزگار اور ترقی کی بات آتی ہے تو پھر اس میں مارکیٹ کی ترجیحات نہیں دیکھی جاتیں۔ بلکہ لوگوں کو دیگر علاقوں کے برابر ترقی کے مواقع فراہم کرنے کے لیے سرمایہ کاری ضروری ہو جاتی ہے۔
ان کے خیال میں بدقسمتی سے پاکستان اب بھی انٹرنیٹ کی دستیابی کے چیلنج سے نبرد آزما ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اس راہ میں پاکستان میں ابھی بھی بہت سارے مسائل ہیں۔ جن میں کچھ کا تعلق تو سرکاری طریقۂ کار سے ہو سکتا ہے۔ لیکن کئی علاقوں میں انٹرنیٹ کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ ملکی سالمیت سے جوڑی جاتی ہے۔ کہیں پر انٹرنیٹ فراہم کرنے کے لیے کی جانے والی سرمایہ کاری اس لیے نہیں کی گئی کہ وہاں صارفین کم ہونے کی وجہ سے سرمایہ کاری کے مالی فوائد نہیں ملیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ملک میں کچھ ایسے علاقے بھی ہیں جہاں انفراسٹرکچر بھی موجود ہے اور صارفین کی معقول تعداد بھی ہے۔ لیکن وہاں سیکیورٹی مسائل کی وجہ سے حکومت تیز تر انٹرنیٹ کی سہولت فراہم نہیں کرتی۔
ان کے بقول ایسے علاقوں میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع شامل ہیں۔ جہاں نائن الیون کے بعد سے جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کے باعث امن و امان کی حالت اب بھی مخدوش ہے۔ تاہم پہلے سے بہتر ہے۔
'دستیاب انٹرنیٹ بھی معیاری نہیں ہے'
بائٹس فار آل کے کنٹری ڈائریکٹر شہزاد احمد کے بقول اس راہ میں رکاوٹ محض انٹرنیٹ کی سہولت کی دستیابی ہی نہیں ہے۔ بلکہ انٹرنیٹ کی سروس کا معیار بھی اہمیت کا حامل ہے۔
ان کے بقول انٹرنیٹ اگر کسی علاقے میں دستیاب بھی ہے تو وہاں تیز تر معیاری انٹرنیٹ میسر نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو پڑھنے کے لیے ملٹی میڈیا مواد دستیاب نہیں ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح بچے تعلیمی سلسلے میں آن لائن کلاسز کے لیے آن لائن ویڈیو کی ایپ ‘زوم’ کے استعمال کے علاوہ ویڈیو لنکس کے لیے ٹو جی یا تھری جی انٹرنیٹ پر انحصار نہیں کر سکتے۔
ان کے خیال میں اس کی ذمہ داری بھی سرکاری ریگولیٹر پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ پاکستانی صارف کو بہتر معیار کے انٹرنیٹ تک رسائی مل رہی ہے یا نہیں۔
شہزاد احمد کے مطابق ماضی میں اس مقصد کے لیے ‘یونیورسل سروس فنڈز’ کا بھی صحیح استعمال نہیں کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اس فنڈ کا مقصد پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ تک رسائی ممکن بنانے کے لیے انفراسٹرکچر قائم کرنا تھا جس سے انٹرنیٹ کی دستیابی کو بڑھانا مقصود تھا۔ اس فنڈ میں ملک میں کام کرنے والی ٹیلی کام کمپنیوں کی آمدن کا کچھ حصہ شامل کیا جاتا تھا۔
انٹرنیٹ نہ ہونے سے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے کا اندیشہ
یونیسیف کے ماہرین نے رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ کرونا وبا کے عرصے میں انٹرنیٹ کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو تعلیم سے دور رکھنے سے ان کا مستقبل تاریک ہونے کا اندیشہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ایک جانب کرونا کی وجہ سے بچوں کی صحت خطرے میں ہے تو دوسری جانب اس قدر بڑی تعداد کے پاس آن لائن تعلیم کا ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے حقوق متاثر ہو رہے ہیں اور کرونا وبا کی وجہ سے بچوں کی صحت، خوراک اور تعلیم کا نقصان ناقابل تلافی ہو سکتا ہے۔
یونیسیف کا مزید کہنا ہے کہ اس مقصد کے لیے تعلیم کے حصول کی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال نا گزیر ہو چکا ہے۔ اس کے لیے مختلف برادریوں کو تعلیم کے حصول کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی کو آسان بنانا ہوگا۔
یونیسیف نے اپنی رپورٹ میں انٹرنیٹ کی گھروں، برادریوں اور اسکولوں تک رسائی کو موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لیے بہتر تعلیم اور ہنر سیکھ کر پائیدار مستقبل کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ضروری قرار دیا ہے۔
ادھر شہزاد احمد کے بقول پاکستان میں جنگی بنیادوں پر انٹرنیٹ تک رسائی ممکن بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے اور وہ علاقے جہاں انٹرنیٹ میسر نہیں ہے وہاں معیاری سروس کی فراہمی کو ممکن بنانا ہوگا۔
شہزاد کے مطابق اس سے جہاں تعلیم کا حصول آسان ہو گا وہیں چھوٹے کاروبار پھل پھول سکتے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں تعلیمی اور تحقیقی اداروں میں بہترین ریسرچ ورک ہو سکتا ہے۔ اس طرح لوگوں کو روزگار سے لے کر اپنی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے بہت سے مواقع مل سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی نئی نسل کو اعتماد دینا ہو گا۔ اس اعتماد کے تحت انہیں انٹرنیٹ تک رسائی دینی ہو گی۔ تاکہ وہ ٹیکنالوجی کے ثمرات سے پوری طرح مستفید ہو کر اپنے لیے اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوں۔
انہوں نے کہا کہ کرونا کے مقابلے کے ساتھ آج کی مسابقتی دنیا میں زندہ رہنے کے لیے انٹرنیٹ ایک ضروری آلہ بن چکا ہے۔
اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ ہے جس میں سے 16 کروڑ 89 لاکھ افراد کے پاس موبائل فون ہے۔ ان میں سے 8 کروڑ 50 لاکھ کے پاس اسمارٹ فون کے ذریعے تھری جی یا فور جی انٹرنیٹ سروس میسر ہے۔ جب کہ مزید 20 لاکھ افراد کے پاس بھی برانڈ بینڈ سروس موجود ہے۔