پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر، وزارت پیٹرولیم میں مشیر اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے سربراہ جیسی انتہائی اہم ذمے داریاں ادا کرنے والے ڈاکٹر عاصم حسین کی بدھ کو حراست اور جمعرات کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جانب سے 90 روز کے لئے رینجرز کی تحویل میں دیئے جانے سے متعلق خبروں نے سندھ کی سیاست میں بری طرح ہلچل مچا دی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر عاصم پر ’دہشت گردوں کی مالی معاونت، منی لانڈرنگ، چائنا کٹنگ اور سی این جی اسٹیشنز کو غیر قانونی طور پر لائسنس دینے کے الزامات ہیں‘۔
سیاسی تجزیہ نگاروں، تجربہ کار مبصرین اور بعض سیاستدانوں کا خیال ہے کہ چونکہ ڈاکٹر عاصم پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین و سابق صدر آصف علی زرداری کے انتہائی قریبی اور بااعتماد ساتھی خیال کیے جاتے ہیں، اِس لئے ان کی حراست پارٹی کے ساتھ ساتھ دیگر عہدیداروں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پی پی پی اس خطرے کو بھانپ چکی ہے۔ اِسی لئے آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ، ڈاکٹر عاصم کی حراست پر سخت مؤقف اختیار کر رہے ہیں۔
جمعرات کو خورشید شاہ کے اس بیان نے سندھ کی سیاست میں مزید ہیجان پیدا کر دیا ہے جس میں انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’کرپشن کے نام پر آصف زرداری پر براہ راست ہاتھ ڈالا گیا تو یہ جنگ کی ابتدا ہوگی۔‘
ادھر اینٹی کرپشن کورٹ نے پی پی پی سے ہی تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما مخدوم امین فہیم کو بدعنوانی کے مقدمے میں گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم بھی پی پی کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں۔
جمعرات کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم سمیت دیگر ساتھیوں کے خلاف ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی پاکستان میں کرپشن سے متعلق تفتیش مکمل کرتے ہوئے 12 مقدمات کے حتمی چالان عدالت میں پیش کر دیئے۔ چالان میں پیپلز پارٹی کے دونوں رہنماوٴں سمیت دیگر افراد کو مفرور بتایا گیا جس پر عدالت نے دونوں رہنماوٴں سمیت دیگر افراد کو 10 ستمبر تک گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی پیپلز پارٹی کے مذکورہ دونوں رہنما 12 مختلف مقدمات میں پیش ہو کر اپنی ضمانتیں ضبط کروا چکے ہیں۔
پی پی کے ایک اور رہنما قمرالزمان کائرہ بھی خورشید شاہ جیسا ہی مؤقف رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کرپشن چاروں صوبوں میں ہوتی ہے تو پھر سندھ اور خاص کر کراچی کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
مقامی میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کے بعد آصف زرداری نے پارٹی قائدین سے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے پارٹی رہنماوٴں کی گرفتاریوں پر بھرپور احتجاج اور ٹھوس حکمت عملی اپنانے کی ہدایات دی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ لیکن جیلیں اور ہتھکڑیاں ہمارا راستہ نہیں روک سکتیں۔
ان ہدایات کے بعد سیاسی تجریہ نگار اور مبصرین سندھ کی سیاست میں ہلچل کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ ان کے تئیں آنے والے دن اور ہفتے سیاست میں مزید مد و جزر پیدا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔