افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ باغیوں کے خلاف امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں پر پاکستان کی فوج کے اس بیان کو اہمیت دی جا رہی ہے کہ ان حملوں میں آج تک جوافراد ہلاک ہوئے ہیں ان میں زیادہ تر عسکریت پسند تھے اور ان میں بڑی تعداد میں غیر ملکی بھی شامل تھے۔( بتایا گیا ہے کہ کل 164 حملوں میں 964 دہشت گرد مارے گئے جن میں سے 171 غیر ملکی تھے)
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اگر فوج کے عہدیدار سے منسوب بیان اور اعدادو شمار درست ہیں تو اس کا مطلب یہ لیا جاسکتا ہے کہ دونوں ملکوں کے عسکری اداروں کے درمیان نہ صرف تعاون کی فضا بہتر ہو رہی ہے بلکہ یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ پاکستان کی فوج کو ڈرون حملوں پر کچھ زیادہ اعتراضات نہیں ہیں ۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت واقعی ڈرون حملوں کو عسکریت پسندوں کےخاتمے میں اہم سمجھتی ہے تو اُن کو جائز تسلیم کر لینا چاہیے تاکہ ملکی خودمختاری کی خلاف ورزی کا سوال نہ رہے اور یہ حملے دہشتگردی کےخلاف مشترکہ کارروائیوں کا حصہ خیال ہوں۔ اُن کے خیال میں اِس طرح امریکہ مخالف جذبات میں بھی کمی آئیگی۔
دوسری طرف اسلام آباد میں ریجنل انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈی سے وابستہ ڈاکٹر شاہیں اختر کا کہنا ہے کہ کسی بھی سیاسی قیادت کے لیے ان حملوں کی قانونی طور پر اجازت دینا ایک مشکل فیصلہ ہو گا۔
مزید تفصیلات اِس آڈیورپورٹ میں سنیئے: