امریکہ کے بغیر پائلٹ والے ہوائی جہازوں سے جنہیں ڈرون کہتے ہیں، پاکستان کے شمالی وزیرستان کے علاقے میں میزائلوں کے حملے کیئے جاتے رہے ہیں۔ امریکی فوج کے عہدے داروں کا خیال ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد کا یہ پہاڑی علاقہ بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز بن گیا ہے اور یہیں سے ہمسایہ ملک افغانستان میں اتحادی فوجوں پر حملے کیئے جاتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں، شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر امریکی ڈرونز کے حملوں میں تیزی آ گئی ہے ۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں امریکہ کے خلاف جذبات میں شدت کی بڑی وجہ ان حملوں کے نتیجے میں سویلین آبادی کا جانی نقصان ہے ۔
عوام کے سامنے تو پاکستانی فوج اور سیاسی قیادت ڈرونز کے حملوں کو ملک کے اقتدار اعلیٰ کی خلاف ورزی کہہ کر ان کی مذمت کرتی رہی ہے ۔ لیکن عام خیال یہی ہے کہ مقامی حکام ڈرون پروگرام کو جسے امریکی سی آئی اے چلاتی ہے ، انٹیلی جنس فراہم کرتے ہیں۔
اب پہلی بار شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی قیادت کرنے والے جنرل نے کُھل کر اعتراف کیا ہے کہ امریکہ کے ڈرونز جہازوں کا نشانہ بننے والے بیشتر افراد عسکریت پسند اور القاعدہ کے جنگجو ہوتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستانی رپورٹروں کے ایک گروپ کو میران شاہ لے جایا گیا جو شمالی وزیرستان کا صدر مقام ہے۔ یہاں میجر جنرل غیو رمحمود نے انہیں بتایا کہ فوج نے جو معلومات اکٹھی کی ہیں، ان سے پتہ چلا ہے کہ ڈرونز کے حملوں میں بیشتراہم عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں اور ہلاک ہونے والے بے گناہ لوگوں کی تعداد نسبتاً کم ہے۔
اس موقع پر رپورٹروں میں جو کاغذ تقسیم کیا گیا اس میں کہا گیا ہے کہ 2007 سے اب تک عسکریت پسندوں کے زیرِ اثر شمالی وزیرستان کے علاقے میں ڈرونز کے 164 حملے کیئے گئے ہیں جن میں 964 دہشت گرد ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں 171 القاعدہ کے جنگجو تھے جن میں سے بیشتر کا تعلق وسط ایشیا اور عرب ملکوں سے تھا۔ پاکستانی فوج کے سابق جنرل طلعت مسعود جیسے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ فوج کی طرف سے ڈرون حملوں کے موثر ہونے کے اس غیر معمولی اعتراف کو عام لوگوں میں یہ احساس بیدار کرنے کے لیئے استعمال کیاجا سکتا ہے کہ پاکستان کو ایک مشکل صورت حال درپیش ہے۔
وہ کہتے ہیں’’ایک طرف تو ڈرون حملوں سے پاکستانی کے اقتدارِ اعلیٰ اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ، جنگی اعتبار سے ان کا فائدہ یہ ہے کہ ان علاقوں پر پاکستان کا کنٹرول ختم ہو چکا ہے اور اگر امریکی ڈرونز سے ان عسکریت پسند طاقتوں کا زور توڑنے اور ان میں سے کچھ کو، خاص طور سے ان کی اعلیٰ قیادت کو ہلاک کرنے میں مدد ملتی ہے، تو اس طرح پاکستان کو ان عسکریت پسند فورسز سے لڑنے میں آسانی ہوگی۔‘‘
عائشہ صدیقہ ماہر عمرانیات ہیں اور پاکستانی فوج کے امور پر گہری نظر رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک ایسے ملک میں جہاں فوج طاقت کا سرچشمہ ہے، اس اعتراف سے کہ ڈرونز عسکریت پسندوں کے خلاف موثر ہتھیار ہیں، سیاسی لیڈروں کو عوام کے سامنے ان حملوں کو قانونی حیثیت دینے میں مدد ملے گی۔ وہ کہتی ہیں’’بنیادی طور پر اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی طاقتوں پر زیادہ دباؤ پڑ رہا ہے، وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور اس لیئے انہیں کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فوج بھی جو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے، ڈرون حملوں کے فیصلے میں ایک فریق ہے ۔تو میرے خیال میں اہم ترین بات یہ ہے کہ پاکستانی فوج ڈرون حملوں کے فیصلے میں فریق ہونے کی ذمہ داری سے جان نہیں چھڑا رہی ہے اور یہ کہ ان حملوں کے لیئے انٹیلی جنس ہمارے اپنے ذرائع سے فراہم کی جاتی ہے۔‘‘
امریکہ ڈرون حملوں کا اعتراف نہیں کرتا لیکن امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ میزائلوں کے حملے عسکریت پسندوں کے خلاف اہم ہتھیار ہیں۔ مبصرین کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج کا یہ اعتراف کہ ڈرون حملے موثر ہیں، دونوں ملکوں کے لیئے مفید ثابت ہو سکتا ہے ۔اس طرح ڈرون پروگرام کے ناقدین کو یہ پیغام ملتا ہے کہ ا ن حملوں میں سویلین آبادی کو نشانہ نہیں بنایا جا رہا ہے اور یہ فوجی اعتبار سے موثر ہیں۔