رسائی کے لنکس

نیٹو سپلائی لائن پر دھرنا : تحریک انصاف باقی جماعتوں سے ایک قدم آگے


نیٹو سپلائی لائن پر دھرنا : تحریک انصاف باقی جماعتوں سے ایک قدم آگے
نیٹو سپلائی لائن پر دھرنا : تحریک انصاف باقی جماعتوں سے ایک قدم آگے

رواں ہفتے کے آخری دو دن پاکستان تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کے لئے نہایت اہم ہیں۔ یہی وہ دن ہیں جب وہ خبروں کی شہ سرخیوں میں بھی ہوسکتے ہیں۔ 23 اور 24 اپریل کو عمران خان نے ڈرون حملوں کے خلاف مہم تیز کرتے ہوئے پشاور طورخم شاہراہ پر دھرنا دینے کا اعلان کر رکھا ہے جس کا مقصد نیٹو فورسز کو پاکستان سے سپلائی روکنا ہے ۔

دھرنے کا فیصلہ تحریک انصاف کی سیاست کا رخ متعین کرے گا ۔ عین ممکن ہے کہ یہ دھرنا پی ٹی اے کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہو کیوں کہ ابھی تک کسی بھی سیاسی جماعت نے نیٹو سپلائی لائن پر ڈرون حملوں کے خلاف اس حد تک جانے کا اعلان نہیں کیا جس حد تک عمران خان نے کیا ہے۔ ڈورون حملوں کے خلاف احتجاج تو ہوتے رہے ہیں لیکن سپلائی لائن پر دھرنا پہلی مرتبہ ہوگا۔

دھرنا کیوں؟

عمران خان کاکہنا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ سے پاکستان کو 70ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے جبکہ ان سے کئی ہزار انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ ان کے نزدیک دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی اپنی جنگ نہیں ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف ہی عوام کو انصاف دلائے گی کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی پیداکردہ جماعتیں یہ کام نہیں کرسکتیں ۔

دھرنے سے دہشت گردوں کا فائدہ!!

نیٹو سپلائی لائن پر دھرنا دینے میں پی ٹی اے کس حد تک کامیاب ہوگی یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا تاہم اس اعلان کے بعد بہت سے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔ سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اگر سپلائی لائن بند ہوئی تو اس کا فائدہ صرف اور صرف دہشت گردوں کو ہوگا۔ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ متوقع دھرنے سے طالبان کے ہاتھ مضبوط ہوں گے جبکہ عمران خان کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے اب کوئی نہیں بات رہی، کئی سال سے جاری ہیں پھر آخر پی ٹی اے اتنے عرصے سے خاموش کیوں تھی اور اب اچانک تیزی آجانا کیا معنی رکھتا ہے ؟

تحریک انصاف کا پس منظر ،کامیابیاں و ناکامیاں

تحریک انصاف اپریل 1996 میں قائم ہوئی اور اس کے بانی و چیئرمین پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق قائد عمران خان ہیں ۔بارہ سالہ اس تحریک نے 1997 کے عام انتخابات میں پہلی مرتبہ سات حلقوں سے حصہ لیاتاہم وہ کوئی ایک نشست بھی نہ جیت سکی ۔سن 2002ء کے عام انتخابات میں پاپولر ووٹس میں ان کا حصہ صفر اعشاریہ آٹھ رہا جبکہ تحریک کی جانب سے2008ء کے عام انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ۔

جمہوری و عسکری قوتوں سے ناراضگی

عمران خان ملک میں تقریباً تمام ہی سیاسی جماعتوں سے ناراض نظر آتے ہیں ۔ اگرچہ عدلیہ بحالی تحریک میں مسلم لیگ ن کے ساتھ ان کے خوشگوار تعلقات نظر آئے تاہم اب وہ اس کے سب سے بڑے مخالف ہیں ۔ اسی طرح گزشتہ دور میں وہ متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف کھل کر بیان بازی کررہے تھے اور اس کی وجہ سے ان کی کراچی آمد پر پابندی بھی لگائی گئی تاہم گزشتہ ماہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے ان کی ٹیلی فونک گفتگو ہوئی جس کے بعد کراچی کے حالات پر آج کل وہ کچھ بھی نہیں بول رہے ۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ سابق صدر پرویز مشرف نے انہیں وزیر اعظم کے منصب کی پیشکش کی تھی تاہم چونکہ وہ آمریت اور مشرف دونوں کے خلاف ہیں لہذا انہوں نے اس پیشکش کو ٹھکرا دیا اوراصولوں کو ترجیح دی ۔

مطالبات

عمران خان کے مطالبات رہے ہیں کہ سیاستدان بیرون ملک اثاثے ملک میں لائیں ، کرپشن ختم کی جائے ، ٹیکس کا نظام درست کیا جائے ، لاقانونیت ختم کی جائے ، لوٹی ہوئی دولت واپس لائی جائے اورلوڈ شیڈنگ ختم کی جائے ۔ تیونس، مصر دیگر عرب ممالک میں حکومتوں کے خلاف ہونے والے عوامی مظاہروں پر عمران کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی عوام حکمرانوں سے ناراض ہیں اور یہاں بھی عوامی انقلاب آیا ہی چاہتا ہے مگر ان کا خیال غلط ثابت ہوا۔

سیاست کا محور

امریکی مخالفت ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی ، ریمنڈ ڈیوس اور ڈرون حملے پی ٹی اے کی سیاست کا محورہے جبکہ بارہ سال گزرجانے کے باوجودپی ٹی اے اور اس کے قائد عوام میں مقبول ہونے کیلئے کوشاں ہیں ۔

عمران خان کی سوانح حیات

25 نومبر 1952 کو لاہور میں اکرام اللہ خان کے ہاں پیدا ہونے والے عمران خان نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ۔ عمران خان ہمیشہ سے ہی قائدانہ صلاحیتوں کے مالک رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کی قیادت میں پاکستان نے 1992 میں منعقد ہونے والا عالمی کرکٹ کپ اپنے نام کیا جس نے عمران کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے ۔عمران فلاحی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں ۔ 1992 میں انہوں نے کینسر کے مریضوں کے لئے ایشیاکا سب سے بڑا اسپتال قائم کیا ۔ 1995 میں ان کی شادی برطانوی ارب پتی سر جیمز اسمتھ کی بیٹی جمائما گولڈ اسمتھ سے ہوئی تاہم یہ بندھن زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا اور 2004 میں دونوں کی راہی جد ا ہوگئیں ۔

XS
SM
MD
LG