رسائی کے لنکس

’ ڈرون حملے رکوانے کے لیے سخت موقف اپنانے کی ضرورت‘


’ ڈرون حملے رکوانے کے لیے سخت موقف اپنانے کی ضرورت‘
’ ڈرون حملے رکوانے کے لیے سخت موقف اپنانے کی ضرورت‘

حالیہ دنوں میں مبینہ امریکی ڈرون حملوں کے خلاف احتجاج میں شدت آنے کے بعد پاکستان اور امریکہ کی حکومتوں کو دوطرفہ تعلقات کو معمول پر لانے میں بظاہر مشکلات کا سامنا ہے۔

بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی حزب اختلاف کی جماعتوں نے ڈرون حملوں پر بھرپور احتجاج کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملہ پر امریکی حکومت کے ساتھ سخت موقف اپنائے۔

مسلم لیگ (ق) کے سینیٹرطارق عظیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور اراکین پارلیمان ماضی میں بھی ڈرون حملوں کی مذمت کرتے آئے ہیں لیکن اُس کے باوجود یہ سلسلہ نہیں رکا۔ ”اکتوبر 2008ء میں پارلیمنٹ نے ڈرون حملوں کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کی تھی اور اُس کے چند ہی گھنٹوں بعد ایک حملہ کر دیا گیا۔ اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے اور اس طرح کے حملوں کو پاکستان کی سرزمین پر حملہ سمجھا جائے اور اگر یہ حملے نہ رکے تو اس معاملے کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اُٹھانا چاہیئے“۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی عبدالقادر بلوچ کے بقول ڈرون حملے پاکستان کے خلاف جنگ کے مترادف ہے اور اُن کا کہنا ہے کہ حکومت کا نرم موقف ظاہر کرتا ہے کہ یہ کارروائیاں اُس کی رضامندی سے کی جارہی ہیں ۔ ”اگر یہ حملے آپ کا دوست کر رہا ہے تو وہ آپ کی مرضی کے بغیر کبھی نہیں کرتاہے۔ اگر آپ کی مرضی شامل نہیں ہے تو آپ ان کو روک سکتے ہیں اور ایسا کرنے کی صلاحیت پاکستان کے پاس ہے۔“

لیکن عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان کا کہنا ہے کہ ڈرون حملے رکوانے کے لیے جذباتی فیصلے ملک کو درپیش اقتصادی اور سلامتی کے مسائل میں اضافے کا باعث بنیں گے ۔ ”اس مسئلے کو اقوام متحدہ سمیت ہر فورم پر اُٹھانا چاہیئے، پارلیمان سے اس کی مذمت اور احتجاج کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیئے اور امریکی حکام پر واضح کرنا چاہیئے کہ ڈرون حملوں کا نا تو پاکستان اور نا ہی امریکہ کو کوئی فائدہ ہو رہا ہے۔ میر ے خیال میں اپنی بات پہنچانے کے لیے ڈرون حملوں پر اس طرح کا احتجاج ہی مفید راستہ ہے“۔

پارلیمان میں ہونے والی اس تنقید کاجواب دیتے ہوئے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں ایک پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بینر سے رواں ہفتے ملاقات میں بھی اُنھوں نے امریکہ پر واضح کیا کہ ڈرون حملے انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ” ہمیں مشکل صورت حال کا سامنا ہے، نہ صرف ہم جانی قربانی دے رہے بلکہ ہماری معیشت بھی تباہ ہو رہی ہے ۔ میں نے امریکی وفد کو بتایا ہے کہ اب ہمیں (حکومت کو) پارلیمان میں بھی اس دباؤ کا سامنا ہے کہ ڈرون حملے بند کروائے جائیں“۔

تجزیہ نگار حسن عسکر ی رضوی کا کہنا ہے کہ ڈرون حملوں پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی جماعتوں کی طرف سے احتجاج میں شدت کی وجہ بظاہر سیاسی مفادات کا حصول ہے۔

XS
SM
MD
LG