گزشتہ ماہ اگست میں امریکہ کی مشرقی ساحلوں کو ہلا دینے والے زلزلے نے سب کو ماہرین ارضیات سمیت حیران کر دیا۔ اور جب یہ کہا جاسکے کہ زلزلہ آنے والا ہے تب بھی سائنسدان درست پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ دو سو سال پہلے زلزلوں کی فالٹ لائن پر بسنے والے ایک امریکی شہر نیو میڈرڈ کو جھٹکوں نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ زلزلوں کی فالٹ لائن ریاست الی نوئے، میزوری، کین ٹکی، ارکنساس اور ٹینیسی سے گزرتی ہے۔ اس علاقے میں چھوٹے موٹے زلزلے آتے رہتے ہیں ، تاہم حتمی طور پر کسی بڑے زلزلے کی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی۔
سن انیس سو گیارہ اور بارہ کے موسمِ سرما میں نیو میڈرڈ میں آنے والے زلزے ، داستانوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ کہانی کے مابق وہ اتنے شدید تھے کہ دریائے مسی سپی الٹا بہنا شروع ہو گیا تھا۔ ریاست کیلیفورنیا کے شہر پیسا ڈینا میں قائم امریکی جیولاجیکل سروے کی سوزن ہوگ کہتی ہیں کہ وہ زلزلہ دریا کی نچلی سطح تک پہنچ گیا تھا اور اس نے واقعی دریا کی زیریں سطح میں سیڑھیاں سی بنا دی تھیں جس سے اتنا شدید تلاطم پیدا ہوا اور اتنی بلند لہریں پیدا ہوئیں کہ پانی الٹا بہنا شروع ہو گیا۔
سوزن ہوگ کا کہنا ہے کہ ان زلزلوں کے بارے میں زیادہ تر معلومات آپ بیتیوں کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں۔ مثلاً یہ واقعہ ہمیں امریکی صدر زاکاری ٹیلر کی تحریر سے پتہ چلا۔ انہوں نے اس زلزلے کے جھٹکے تین سو ستر کلو میٹر دور لوئی وِل میں محسوس کئے تھے۔
وہ تحریر کرتے ہیں کہ وہ منظر حقیقتاً وحشتناک تھا۔ گھر مسمار ہو رہے تھے، چمنیاں گر رہی تھیں، مرد ،عورتیں اور بچے صرف قمیضیں پہنےپناہ کے لئے ہر سمت میں بھاگ رہے تھے۔ میرا ایک دوست تو اس قدر دہشت ذدہ ہو گیا کہ اس نے اپنی کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا دی اور بری طرح زخمی ہو گیا۔
ہوگ کے مطابق نیو میڈرڈ میں آنے والا سب سے شدید زلزلہ ریکٹر اسکیل پر سات درجے کا تھا۔ اسی شدت کا زلزلہ گزشتہ سال ھیٹی میں آیا تھا۔
تاہم سرکاری طور پر زلزلے کی شدت کا اندازہ سات اشاریہ سات لگایا گیا تھا۔
مسئلہ یہ ہے کہ سائنسدان یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ کب اور کہاں زلزلہ آئے گا اور کیادوبارہ بھی زلزلہ آئے گا۔ نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ماہرِ ارضیات سیٹھ اسٹائن کہتے ہیں کہ ایک تو ہم نیو میڈرڈ کے علاقے میں جلد ہی کسی دوسرے بڑے زلزلے کی توقع نہیں کر رہے۔ اسٹائن اور دیگر افراد فالٹ لائن کے ارد گرد کے علاقوں میں جی پی ایس ٹیکنالوجی کی مدد سے زمین کی حرکت اور شکل بدلنے کا اندازہ کرتے ہیں۔
اسٹائن کہتے ہیں کہ ریاست کیلیفورنیا، الاسکا، اوریگن، اور واشنگٹن میں اور ہر اس علاقے کو جو امریکہ میں فالٹ لائن کی راہ میں پڑتا ہے وہاں ہم نے زمین کی شکل میں تبدیلی آتے دیکھی ہے۔ اس لئےاسٹائن اور انکے ساتھی جی پی ایس کی مدد سے نیو میڈرڈ میں زمین کی نگرانی کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ وہاں زمین میں کوئی حرکت نہیں ہو رہی۔ اسٹائن کا کہنا ہے کہ اس کی ایک توجیح تو یہ ہو سکتی ہے کہ بر اعظم امریکہ کے وسط میں واقع seismic zonesیعنی وہ علاقے جو زلزلوں کی ذد میں آتے ہیں وہ دیگر علاقوں جیسے کیلیفورنیا کے مقابلے میں مختلف ہیں۔ کیلیفورنیا میں زمین کی پرتیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو زلزلے آتے ہیں۔
ارضیاتی اعتبار سے براعظموں کے وسط میں پائے جانی والی فالٹ لائنیں ایک مختصر سے وقفےکے لئے فعال رہیں گی۔ ہو سکتا ہے یہ عرصہ چند ہزار سالوں پر محیط ہو۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصے کے لئے غیر فعال ہو جائیں گی اور اس کے بعد پھر پہلے کی حالت میں لوٹ آئیں گی۔ سو اس سے یو ں لگتا ہے کہ ان کا ایک دورانیہ ہو سکتا ہے کہ مکمل ہونے والا ہے۔
تاہم بہت سے دوسرے ماہرین ارضیات اس سے اتفاق نہیں کرتے ریاست کولوریڈو کے ماہرِ ارضیات رابرٹ ولیمز کہتے ہیں کہ آپ اپنے ماضی کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ دو سو برس پہلے کے زلزلوں نے زمین کی اندرونی تہہ کو مائع شکل میں تبدیل کر دیا تھا جس سے گیلی ریت کے انبار بیرونی سطح پر ابل پڑے تھے۔ رابرٹ کا کہنا ہے کہ سن اٹھارہ سو گیارہ کے زلزلوں پر تحقیق کرنے والے ماہرین ارضیات نے اس سائنس میں ترقی کی ہے۔ انہوں نے دریافت کیا ہے کہ سن اٹھارہ سو گیارہ سے پہلے بھی اسی شدت کے زلزلے آتے رہے ہیں۔
رابرٹ کہتے ہیں کہ سائنسدانوں کو معلوم پڑا ہے کہ سن اٹھارہ سو گیارہ سے پہلے سن چودہ سو پچاس اور اس سے پہلے سن نو سو میں بھی ایسے ہی زلزے آئے تھے۔ رابرٹ کہتے ہیں کہ شدید زلزلوں کی طرز سے یوں لگتا ہے کہ ایک اور بڑے زلزلے کےجلد آنے کے امکان موجود ہیں۔
رابرٹ کہتے ہیں کہ ہم زلزلوں کی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ اس لئے جیالوجیکل ریکارڈ ہی درحقیقت ہمارے پاس ایک ایسا ثبوت موجود ہے جو ہمیں نیو میڈرڈمیں آنے والے زلزلوں کے بارے میں فکر مند رکھنے کا ایک ذریعہ ہے۔
اور ماہرین کو امید ہے کہ آئندہ جب بھی اس علاقے میں شدید زلزلہ آئے گا تو ہم اس کے لئے تیارہو چکے ہونگے۔