منی لانڈرنگ کے معاملات پر نظر رکھنے والے بھارت کے ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے سینئر صحافی رعنا ایوب کے خلاف اترپردیش کی ایک عدالت میں چارج شیٹ پیش کر دی ہے۔
مذکورہ ادارہ 2021 میں اترپردیش پولیس کی جانب سے رعنا ایوب کے خلاف درج ایف آئی آر کی بنیاد پر منی لانڈرنگ کے معاملے کی تحقیقات کر رہا تھا۔
خاتون صحافی پر الزام ہے کہ انہوں نے فلاحی کاموں کے نام پر عوام سے غیر قانونی طور پر فنڈز حاصل کیے تھے۔
ای ڈی کی چارج شیٹ کے مطابق رعنا ایوب نے فنڈز کے حصول کے لیے تین مواقع پر مہم چلائی اور آن لائن چندہ حاصل کرنے والے پلیٹ فارم 'کیٹو' کے توسط سے کروڑوں روپے جمع کیے۔
تحقیقاتی ادارے کے مطابق خاتون صحافی نے سال 2020 کے ماہ اپریل اور مئی میں کچی بستیوں کے رہائشیوں اور کسانوں کے لیے، اسی سال جون اور ستمبر کے دوران آسام، بہار اور مہاراشٹرا میں ریلیف کا کام کرنے کے لیے اور پھر سال 2021 کے مئی اور جون کے دوران کووڈ-19 سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کی مہم چلائی تھی۔
ای ڈی کا الزام ہے کہ رعنا ایوب نے ان مواقع پر مجموعی طور پر دو کروڑ 69 لاکھ روپے اکٹھے کیے جن میں سے 80 لاکھ 49 ہزار روپے غیر ملکی کرنسی میں ملے تھے۔ لیکن جب محکمۂ انکم ٹیکس نے غیر ملکی چندہ حاصل کرنے میں فارن کنٹری بیوشن ریگولیٹری ایکٹ (ایف سی آر اے) قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کی تحقیقات شروع کی تو انہوں نے غیر ملکی چندہ واپس کر دیا۔
واضح رہے کہ ای ڈی نے رواں برس چار فروری کو منی لانڈرنگ کی روک تھام کے ایکٹ 2002 کے تحت رعنا ایوب کے بینک اکاؤنٹ میں سے ایک کروڑ 77 لاکھ روپے کی رقم ضبط کر لی تھی۔ خاتون صحافی نے اس کارروائی کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس پر عدالت نے سماعت جاری رہنے تک ای ڈی کو فنڈ ضبط کرنے سے روک دیا تھا۔
ای ڈی کا یہ بھی الزام ہے کہ رعنا ایوب نے آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے اپنے والد اور بہن کے بینک اکاؤنٹ میں فنڈ منگایا جو بعداں ان کے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کر دیا گیا۔ انہوں نے ان رقوم میں سے اپنے نام میں 50 لاکھ روپے کی فکسڈ ڈپازٹ کی اور مزید 50 لاکھ نئے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیے۔
ای ڈی کا الزام ہے کہ خاتون صحافی نے صرف 29 لاکھ روپے فلاحی کاموں میں استعمال کیے جب کہ چارج شیٹ میں یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے باقی اخراجات دکھانے کے لیے فرضی بل جمع کرائے۔
'ای ڈی کی کارروائی ہراساں کرنے کی کوشش ہے'
واضح رہے کہ رعنا ایوب اس وقت ایک صحافتی پروگرام میں شرکت کی غرض سے امریکہ میں موجود ہیں۔ انہوں نے ای ڈی کی جانب سے چارج شیٹ پر اپنے ردِ عمل میں کہا کہ یہ کارروائی انہیں نشانہ بنانے اور ہراساں کرنے کی ایک اور کوشش ہے۔ یہ قانون اور مرکزی ایجنسی کا غلط استعمال ہے۔ اس کا مقصد حکومت پر تنقید کرنے سے انہیں روکنا ہے۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ "میرا قلم کبھی خاموش نہیں ہو سکتا۔ میں نے ایک روز قبل ہی امریکہ میں بھارت میں پریس کی آزادی پر حملے کے معاملے میں ایک سیمینار منعقد کیا ہے۔ میں ملک کے کمزور طبقات پر ظلم کے خلاف آواز بلند کرتی رہو ں گی۔"
ان کے بقول انہیں یقین ہے کہ یہ کارروائی عدالت میں نہیں ٹھہر سکتی۔ وہ ایک صحافی کی حیثیت سے اپنا کام کرتی رہیں گی۔
انہوں نے الزاما ت کے جواب میں کہا کہ کووڈ-19 کے متاثرین کی امداد کے لیے جو فنڈز جمع کیے گئے تھے اس سے انتہائی ضرورت مند افراد کی مدد کی گئی اور انہیں خوشی ہے کہ کرونا سے متاثر کئی خاندانوں کی امداد کی گئی۔
نئی دہلی کے صحافیوں نے ای ڈی کی اس کارروائی پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پریس کلب آف انڈیا کا کہنا ہے کہ اگر کسی صحافی کو سیاسی بدنیتی کے تحت ہراساں کیا جاتا ہے تو اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
پریس کلب آف انڈیا کے صدر اوما کانت لکھیڑہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ جب رعنا ایوب کے خلاف منی لانڈرنگ کا کیس بنایا گیا تھا تو اس وقت یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ ان کے خلاف فرد جرم بھی داخل کی جائے گی۔ کیوں کہ انہوں نے 2002 کے گجرات فسادات کے سلسلے میں 'گجرات فائلز'کے نام سے جو کتاب تصنیف کی ہے اس پر مودی حکومت دفاعی پوزیشن میں ہے۔
ان کے مطابق رعنا ایوب پر جو الزامات عائد کیے گئے ہیں اگر وہ درست ہیں اور انہوں نے واقعی خلافِ قانون کوئی کام کیا ہے تو ان کے خلاف ضرور کارروائی ہونی چاہیے لیکن اگر انتقامی جذبے کے تحت کارروائی کی گئی ہے تو اس کی مذمت کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے متعدد صحافیوں کے خلاف بے بنیاد الزامات کے تحت مقدمات قائم کیے ہیں۔ رعنا ایوب نے ایک صحافی کی حیثیت سے جو کام کیا ہے اس کی اپنی اہمیت ہے اور اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
اوما کانت لکھیڑہ کہتے ہیں موجودہ دورِ حکومت میں صحافیوں کے خلاف جو مقدمات قائم ہوئے ہیں ان میں سے بیشتر سیاسی وجوہات کی بنا پر قائم ہوئے۔ ان کے بقول آج بہت سے صحافی حکومت کی مبینہ غلط پالیسیوں کے خلاف لکھ رہے ہیں اور حکومت ایسے صحافیوں سے ناراض ہے۔ اسی لیے ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔
تاہم مرکزی حکومت صحافیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ متعدد وز ار نے بار رہا یہ بات کہی ہے کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی کی حامی ہے اور وہ پریس پر کسی بھی قسم کی پابندی کے خلاف ہے۔