عالمی مالیاتی ادارے کے مشرق وسطی اور وسط ایشیا کے لیے ڈائریکٹر جہاد آذور نے کہا ہے کہ پاکستان کے لیے ایسے وقت میں جب ملک کو کرونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد تباہ کن سیلاب کی وجہ سے بڑے نقصانات کا سامنا ہے، ادارے نے فنڈز کے فوری اجرا سمیت کئی لچکدار اقدامات کیے ہیں۔
تاہم انہوں نے قرضوں کی ری شیڈولنگ کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب پاکستان کے حکام کے ساتھ ریویو اجلاس ہو گا اور اس دوران ورلڈ بنک اور یو ایس ایڈ کے پاکستان میں سیلاب کے سبب ہونے والے نقصانات کا درست تجزیہ بھی آ جائے گا تو آئی ایم ایف اپنے نمبر اپ ڈیٹ کرے گا۔
یہ بات انہوں نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وائس آف امریکہ کی اردو سروس کے ایک سوال کے جواب میں کہی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دنیا کے کئی علاقوں میں بغیر کسی واضح ہدف کے دی جانے والی مراعات یا سبسڈیز (untargeted subsidies) نےمعیشتوں کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچایا ہے۔
جہاد آذور نےمزید کہا کہ ہم پاکستان کے حکام کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں، حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے حقیقی جائزے کے بھی منتظر ہیں۔
’’جب یہ اعدادوشمار ہماے سامنے آ جائیں گے تو ہمیں بھی اپنے نمبرز کو اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘‘
آئی ایم ایف کے اہلکار نے یہ بات ایک ایسے موقع پر کہی ہے جب پاکستانی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار امریکہ کے دورے پر ہیں۔ ان کی سربراہی میں پاکستانی وفد آئی ایم ایف کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے علاوہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اہلکاروں سے دوطرفہ ملاقاتیں بھی کر رہا ہے۔
عالمی مالیاتی ادارے کے مشرق وسطی اور وسط ایشیا کے لیے ڈائریکٹر جہاد آذور نے مزید بتایا کہ ادارے نے حال ہی میں ایک جائزہ مکمل کیا ہے جس کے تحت پاکستان کو 1.2 بلین ڈالرز فراہم کیے گئے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم نومبر میں ایک مشن پاکستان کے ساتھ سالانہ اجلاس کے بعد بھجوائیں گے جو حکام کے ساتھ اگلے ریویو کی تیاری کرے گا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ہم اس وقت نقصانات کے جائزے کے منتظر ہیں جس پر ورلڈ بنک اور یو این ڈی پی کام کر رہے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ سیلاب کے سبب ہونے والے نقصانات نے حکومتی وسائل اور ملکی معیشت پر کیا اثر ڈالا ہے اور معاشرے پر اس کے کیا اثرات پڑے ہیں۔ ہم پاکستان کے حکام سے بات کریں گے، ان کی بات سنیں گے اور دیکھیں گے کہ اس وقت ان کی ترجیحات کیا ہیں اور فنڈز کس طرح مددگار ہو سکتے ہیں”۔
سبسڈیز کے سوال پر عالمی مالیاتی ادارے کے ڈائریکٹر نے کہا کہ دنیا کے کئی دیگر علاقوں میں بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مخصوص آئٹمز پر سبسڈی دینا زیادہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوا، بلکہ میں کہوں گا کہ اس سے معاشی تنزلی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریجنل اکنامک آوٹ لک میں ہم نے ایک بار پھر یہ دیکھا ہے کہ پہلے سے محدود وسائل کو سبسڈی پر خرچ کر دینا زیادہ سودمند نہیں رہا۔ اس لیے ہم پاکستان اور دیگر ممالک کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہ وہ کسی واضح ہدف کے بغیر سبسڈی کو ترک کریں۔
ان کے بقول یہ وسائل کا ضیاع ہے۔ اور یہ ممالک ان وسائل کو ان افراد کے لیے مختص کریں جنہیں ان کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ “بہت اہم ہے کہ ان وسائل کو وہاں استعمال کیا جائے جہاں مسائل بہت بڑھ رہے ہیں اور جہاں اشیا کی قیمتوں میں اضافہ لوگوں کو تکلیف پہنچا رہا ہے۔”
کانفرنس کے دوران آئی ایم ایف کے اہلکار کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح وسائل کا رخ اس طرف موڑا جائے جہاں ان کی زیادہ ضرورت ہے۔ اور یہ آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے کہ جہاں ’ درست تحفط‘ فراہم کرنے کی ضرورت ہو، وہاں ٹارگٹڈ سبسڈی دی جائے اور ان لوگوں کو دی جائے جن کو اس کی بے حد ضرورت ہے، جہاں مہنگائی بہت زیادہ ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے نئے وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے عہدہ سنبھالنے کے بعد 30 ستمبر کو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 12 روپے سے زائد کمی کی تھی۔بعض معاشی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ حکومت نے آئی ایم ایف سے بات چیت کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کا فائدہ عوام تک منتقل کیا۔