مصر میں سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف مظاہرین کے قتل کا حکم دینے سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے فیصلے کا اعلان ایک بار پھر موخر کردیا ہے۔
قاہرہ کی عدالت کی جانب سے ہفتے کو جاری کیے جانے والے بیان کے مطابق اب فیصلے کا اعلان نومبر میں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ مقدمے کی سماعت مکمل ہونے کے باوجود عدالت اس سے قبل بھی کئی بار فیصلے کا اعلان موخر کرچکی ہے۔
سابق صدر، ان کے وزیرِ داخلہ اور ان کی حکومت کے چھ اعلیٰ سکیورٹی افسران پر الزام ہے کہ انہوں نے 2011ء میں حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف ہونے والی عوامی بغاوت اور احتجاج کے دوران سیکڑوں مظاہرین کے قتل اور ان پر تشدد کے احکامات جاری کیے تھے۔
ایک مصری عدالت نے 2012ء میں سابق صدر کو اسی مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ لیکن حکومت اور حسنی مبارک دونوں نے ہی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی تھی جس کا فیصلہ آنے تک انہیں رہا کردیا گیا تھا۔
سابق صدر رہائی کے بعد سے ایک فوجی اسپتال میں نظر بند ہیں اور وہ اس وقت تک وہاں رہیں گے جب تک عدالت کا فیصلہ سامنے نہیں آجاتا۔
حسنی مبارک کے اہلِ خانہ اور وکلا کا کہنا ہے کہ سابق صدر انتہائی علیل ہیں جس کے باعث انہیں اسپتال سے جیل یا کہیں اور منتقل کرنا ممکن نہیں۔
حسنی مبارک پر یہ مقدمہ 2011ء کی عوامی بغاوت کے بعد ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں برسرِ اقتدار آنے والے صدر محمد مرسی کی حکومت نے قائم کیا تھا جن کا تختہ اقتدار کی پہلی سال گرہ سے قبل ہی مصری فوج نے الٹ دیا تھا۔
حسنی مبارک کی حکومت میں انٹیلی جنس امور کے سربراہ اور بعد میں فوج کی کمان سنبھالنے فیلڈ مارشل (ر) عبدالفتاح السیسی اس وقت مصر کے صدر ہیں جن کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد حسنی مبارک اور ان کی حکومت کے اہلکاروں کے خلاف مقدمات کی سماعت سست پڑ گئی ہے۔