واشنگٹن —
مصر کی ایک عدالت نے 39 افراد کے قتل کے ملزم پولیس افسر کو دی جانے والی 10 سال قید کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے معاملے کی دوبارہ تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔
مصر کی وزارتِ داخلہ کے مطابق مرنے والے تمام 39 افراد 'اخوان المسلمون' کے کارکن تھے۔
وزارتِ داخلہ کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہلاک شدگان ان 45 لوگوں میں شامل تھے جنہیں گزشتہ سال مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد احتجاج کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
تفتیشی حکام نے بتایا تھا کہ ملزمان کو گرفتاری کے بعد ایک گاڑی میں بھر کر جیل منتقل کیا جارہا تھا جب ان میں سے 39 افراد دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔
وزارتِ داخلہ کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ گاڑی میں 24 افراد کی گنجائش تھی جس میں 45 افراد بھردیے گئے تھے۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ گاڑی پر آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے گئے تھے۔
قتل کے اس مقدمے میں قاہرہ کی ایک عدالت نے غفلت برتنے کے الزام میں ایک پولیس افسر امر فاروق کو 10 سال قید کی سزا سنائی تھی جسے کئی حلقوں نے بہت کم قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کی تھی۔
تاہم ہفتے کو سزا کے خلاف دائر کی جانے والی اپیل کی سماعت کرنے والی عدالت نے پولیس افسر کو دی جانے والی سزا منسوخ کرتے ہوئے واقعے کی از سرِ نو تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔
مصری عدالت کا یہ فیصلہ جس دن سامنے آیا ہے اسی روز قاہرہ کی ایک دوسری عدالت نے اخوان 10 اہم رہنماؤں اور کارکنوں کو گزشتہ سال احتجاج کے دوران ایک شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور مظاہرین کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں موت کی سزا سنائی ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مصر کی حکومت اور عدالتوں کے دہرے معیار پر تنقید کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ مصر کی عدالتیں معزول صدر مرسی کےحامیوں کو تو چھوٹے چھوٹے الزامات پر سخت سزائیں سنا رہی ہیں لیکن سرکاری اہلکاروں کے سنگین جرائم کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کے خلاف گزشتہ سال ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے حامیوں کےخلاف ملک بھر میں سخت کریک ڈاؤن جاری ہے۔
اس کریک ڈاؤن کے دوران اب تک پولیس اور فوج کی فائرنگ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ اخوان کی تمام مرکزی قیادت اور ہزاروں کارکن جیلوں میں قید ہیں۔
مصر کی وزارتِ داخلہ کے مطابق مرنے والے تمام 39 افراد 'اخوان المسلمون' کے کارکن تھے۔
وزارتِ داخلہ کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہلاک شدگان ان 45 لوگوں میں شامل تھے جنہیں گزشتہ سال مرسی حکومت کے خاتمے کے بعد احتجاج کے دوران حراست میں لیا گیا تھا۔
تفتیشی حکام نے بتایا تھا کہ ملزمان کو گرفتاری کے بعد ایک گاڑی میں بھر کر جیل منتقل کیا جارہا تھا جب ان میں سے 39 افراد دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔
وزارتِ داخلہ کی تحقیقات میں انکشاف کیا گیا تھا کہ گاڑی میں 24 افراد کی گنجائش تھی جس میں 45 افراد بھردیے گئے تھے۔ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ گاڑی پر آنسو گیس کے شیل بھی فائر کیے گئے تھے۔
قتل کے اس مقدمے میں قاہرہ کی ایک عدالت نے غفلت برتنے کے الزام میں ایک پولیس افسر امر فاروق کو 10 سال قید کی سزا سنائی تھی جسے کئی حلقوں نے بہت کم قرار دیتے ہوئے کڑی تنقید کی تھی۔
تاہم ہفتے کو سزا کے خلاف دائر کی جانے والی اپیل کی سماعت کرنے والی عدالت نے پولیس افسر کو دی جانے والی سزا منسوخ کرتے ہوئے واقعے کی از سرِ نو تحقیقات کرنے کا حکم دیا ہے۔
مصری عدالت کا یہ فیصلہ جس دن سامنے آیا ہے اسی روز قاہرہ کی ایک دوسری عدالت نے اخوان 10 اہم رہنماؤں اور کارکنوں کو گزشتہ سال احتجاج کے دوران ایک شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کرنے اور مظاہرین کو تشدد پر اکسانے کے الزام میں موت کی سزا سنائی ہے۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مصر کی حکومت اور عدالتوں کے دہرے معیار پر تنقید کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ مصر کی عدالتیں معزول صدر مرسی کےحامیوں کو تو چھوٹے چھوٹے الزامات پر سخت سزائیں سنا رہی ہیں لیکن سرکاری اہلکاروں کے سنگین جرائم کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔
مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی حکومت کے خلاف گزشتہ سال ہونے والی فوجی بغاوت کے بعد سے ان کی جماعت 'اخوان المسلمون' کے حامیوں کےخلاف ملک بھر میں سخت کریک ڈاؤن جاری ہے۔
اس کریک ڈاؤن کے دوران اب تک پولیس اور فوج کی فائرنگ سے سیکڑوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ اخوان کی تمام مرکزی قیادت اور ہزاروں کارکن جیلوں میں قید ہیں۔