مصر کی حکومت کے ایک ترجمان نے اخبار واشنگٹن ٹائمز کی اس رپورٹ کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی کہ مغربی ملکوں کی انٹیلی جنس ایجنسیاں اس سال کے شروع میں جرمنی میں صدر مبارک کی سرجری کے بعد ان کی صحت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ صدر کا پتے کا آپریشن ہوا ہے اور اب ان کی صحت بحال ہو رہی ہے لیکن واشنگٹن ٹائمز اور مصر میں غیر جانبدار میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق، صدر کی بیماری کی نوعیت اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔
قاہرہ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسرحسن نافع کہتے ہیں’’صد ر کی صحت خراب ہو رہی ہے۔ یہاں ہر چیز خفیہ رکھی جاتی ہے۔ مصر کے لوگوں کوکچھ نہیں معلوم کہ صدر کی صحت کیسی ہے، گویا یہ کوئی ٹاپ سیکرٹ ہے‘‘۔
یہ معاملہ اس لیے اور زیادہ اہم ہو گیا ہے کہ30 سال تک بر سرِ اقتدار رہنے کے بعد مسٹر مبارک نے کسی کو اپنا جانشین نامزد نہیں کیا ہے ۔ پھر یہ بھی ہے کہ اگلے سال صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں، جس کے لیے اب تک کوئی دوسرا امیدوار سامنے نہیں آیا ہے۔ ان حالات میں افواہوں کا بازار گرم ہے۔ جو سرکاری بیانات جاری کیے جاتے ہیں ان پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔ حال ہی میں ایک 28 سالہ بزنس مین، خالد سعید کی موت کے سلسلے میں جو وضاحت جاری کی گئی اس سے لوگوں کے شک و شبہے میں مزید اضافہ ہوا۔ کہا یہ گیا کہ اسکندریہ میں ایک انٹرنیٹ کیفے کی معمول کے مطابق تلاشی کے دوران، چرس کے ایک پیکٹ سے دم گھٹ کر اس شخص کی موت واقع ہوگئی۔
چشم دید گواہوں کا کہنا ہے کہ خالد سعید کو خفیہ پولیس کے لوگوں نے انتہائی سفاکی سے مار مار کر ہلاک کردیا۔ مرنے والے کی تصویروں سے اس بیان کی تائید ہوئی۔ہفتوں کے احتجاج اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپوں کی مذمت کے بعد، حکومت نے اپنے ابتدائی بیان کو تبدیل کیا اور اعلان کیا کہ پولیس والوں پر مقدمہ چلایا جائے گا۔
مصر میں جمہوریت کے لیے سرگرم کارکن احمد صلاح کہتے ہیں کہ خالد سعید کا کیس ایک عام سی بات ہے۔’’کوئی بھی پولیس اسٹیشن میں جا کر دیکھ سکتا ہے کہ پولیس والے کس طرح لوگوں کی پٹائی کرتےہیں۔ خالد سعید کا کیس اس لحاظ سے مختلف ہے کہ انہیں بڑی سفاکی سے مارا پیٹا گیا یہاں تک کہ وہ ہلاک ہوگئے اور یہ سب کچھ بند دروازوں کے پیچھے نہیں، بلکہ کھلے عام ہوا۔ بیسیوں لوگوں نے یہ منظر دیکھا‘‘۔
ایک طویل عرصے سے مصری عوام پولیس کے اختیارات سے خوفزدہ رہے ہیں جن کی کوئی حد نہیں ہے۔ لیکن صلاح کہتے ہیں کہ سعید کے کیس سے لوگوں کو اپنی بے بسی کا احساس ہوتا ہے۔ مسٹر مبارک کی خراب صحت کی وجہ سے انہیں یہ بھی خوف ہے کہ ان کے ملک کی حکومت کا کیا حشر ہوگا۔
احمد صلاح کہتے ہیں’’اس ناامیدی اور خوف کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا تو یہ ہے کہ بالکل ہتھیار ڈال دیے جائیں کیوں کہ کسی قسم کی کوئی امید باقی نہیں ہے۔ عوام با لکل بے بس ہیں۔ دوسرا مرحلہ جس کا ہم سب کو اندیشہ ہے وہ ہے حالات کا پھٹ پڑنا، کیوں کہ ہر کوئی سوچنے لگتا ہے کہ اب ہمار ے پاس ہے ہی کیا جس کے کھونے کا ڈر ہو۔ ہر کوئی ہوش و حواس کھو بیٹھتا ہے۔ آج کل ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ اپنے جذبات کا صحت مند طریقے سے اظہار ہے یعنی بہت سے سرگرم لوگ ایسی سرگرمیاں منظم کر ر ہے ہیں جن سے لوگوں کو اپنے دکھ درد، اپنے غصے اور اپنے خوف کو صحیح طریقے سے ظاہر کرنے کا موقع ملے‘‘۔
صلاح اپنےجذبات کے اظہار کے جس صحیح طریقے کی بات کر رہے ہیں وہ کم اجرت اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کی شکل میں دیکھنے میں آتا ہے ۔لیکن یہ جلسے جلوس اور ایسے مظاہرے جو سعید کی ہلاکت اور ملک کے ایمرجنسی کے قوانین کی حالیہ توسیع کے خلاف ہوئے، نسبتاً چھوٹے پیمانے پر ہوتے ہیں۔ اکثر ان میں چند سو سے زیادہ لوگ شامل نہیں ہوتے۔ ایسے ملک میں جو عرب دنیا کا سب سے بڑی آبادی والا ملک ہے، اتنے تھوڑے سے لوگوں کی شمولیت کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔
سعید صادق قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں عمرانیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’مصر کی تاریخ میں مرکزی حکومت اورمضبوط اداروں کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ان کی موجودگی میں کسی عوامی تحریک، عوامی انقلاب اور بڑے پیمانے پر، مشرقی یورپ اور دوسرے مقامات جیسے مظاہروں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پس امکان یہی ہے کہ آپ اسی حکومت کا تسلسل دیکھیں گے، چہر ے بدل چکے ہوں گے لیکن فوج اور انٹیلی جنس کے ادارے بدستور اپنا پور ا دباؤ ڈالتے رہیں گے‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ صادق اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ مصر میں حکومت کے موجودہ نظام میں تبدیلی اور صحیح معنوں میں سویلین حکومت کے قائم ہونے میں بہت وقت لگے گا۔