مصر میں 10 دسمبر سے صدارتی انتخابات کا آغاز ہو رہا ہے جس میں ایک بار پھر صدر عبدالفتاح السیسی اُمیدوار ہوں گے۔ کامیابی کی صورت میں وہ 2030 تک اس منصب پر فائز رہیں گے۔
عبدالفتاح السیسی 2013 میں جمہوری طور پر منتخب ہونے والے محمد مرسی کا تختہ اُلٹ کر اقتدار میں آئے تھے۔
اٹھارہ برس اور اس سے زائد کے مصری شہری اتوار سے منگل تک جاری رہنے والے صدارتی انتخابات میں اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔
عرب دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں جس کے لیے نو ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں جب کہ 15 ہزار عدالتی اہلکار تین روز تک جاری رہنے والے انتخابات کے لیے اپنے فرائض سرانجام دیں گے۔
اگر دوبارہ الیکشن کی ضرورت پیش نہ آئی تو 18 دسمبر کو انتخابی نتائج کا اعلان کر دیا جائے گا۔
سروے کے مطابق مصر کے ایک کروڑ سے زائد ووٹرز یہ سمجھتے ہیں کہ دوبارہ الیکشن کی ضرورت پیش نہیں آئے گی کیوں کہ 2014 اور 2018 کے انتخابات میں عبدالفتاح السیسی لگ بھگ 96 فی صد ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے تھے۔
بعض حلقے یہ توقع کر رہے ہیں کہ ان انتخابات میں السیسی کے مخالفین کو اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ملے گا۔
مصر میں مخالف آوازوں کو دبانے اور اظہارِ رائے کی آزادی کو سلب کرنے کی شکایات عام ہیں۔
دنیا کے ممالک میں قانون کی حکمرانی پر نظر رکھنے والے ادارے 'جسٹس پروجیکٹ' کے مطابق مصر دنیا بھر میں قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں 140 ممالک میں سے 135 ویں نمبر پر ہے۔
مہنگائی، مصر کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ
ماہرین کے مطابق مصر کے عوام کے لیے سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے جو گزشتہ سال کے آغاز سے مصری عوام کی زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے۔
مصر کی کرنسی مارچ 2022 کے بعد سے لے کر اب تک اپنی آدھی قدر کھو چکی ہے جس کی وجہ سے درآمدات پر منحصر معیشت میں اشیا کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ مصر میں اس وقت افراطِ زر کی شرح 40 فی صد ہے۔
مصر میں تمام اشیا ڈالر میں درآمد کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے پرائیویٹ سیکٹر سکڑتا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے دباؤ پر سبسڈیز بھی مسلسل کم کی جا رہی ہیں۔
گزشتہ برس آئی ایم ایف اور مصر کے درمیان تین ارب ڈالرز قرض کا معاہدہ ہوا تھا جس کے لیے مالیاتی ادارے نے کڑی شرائط بھی رکھی تھیں۔
مدِمقابل اُمیدوار
مصر کی ری پبلکن پیپلزپارٹی کے صدارتی اُمیدوار حازم عمر کہتے ہیں کہ اگر وہ کامیاب ہوئے تو بنیادی اشیائے ضروریہ پر ٹیکس ختم کریں گے تاکہ مہنگائی کم ہو۔
ان خیالات کا اظہار حازم عمر نے واحد ٹیلی ویژن مباحثے کے دوران کیا تھا جس میں صدر السیسی کی نمائندگی انتخابی مہم میں شامل اُن کے ایک رُکن نے کی تھی۔
دوسرے اُمیدوار 66 سالہ فرید زھران ہیں جو مصر کی بائیں بازو کی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی کے رہنما ہیں۔
اُنہوں نے وعدہ کر رکھا ہے کہ کامیابی کی صورت میں وہ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیں گے جنہیں عبدالفتاح السیسی کے اقتدار میں آنے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
السیسی کے مقابلے میں تیسرے اُمیدوار عبدالسند یمامہ ہیں جو مصر کی قدیم لبرل پارٹی 'وافد' کے رہنما ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آنے کی صورت میں وہ صدارتی عہدے کی میعاد چار سال کر دیں گے۔
غزہ جنگ کا انتخابات پر اثر
ماہرین کہتے ہیں کہ غزہ جنگ کی وجہ سے پہلے سے دباؤ کا شکار مصری معیشت مزید مشکلات سے دوچار ہے۔
سات اکتوبر کو غزہ جنگ کے آغاز کے بعد 20 اکتوبر کو ہزاروں افراد قاہرہ کے 'التحریر اسکوائر' پر نکل آئے تھے۔ یہ وہی مقام ہے جہاں 2011 میں 'عرب سپرنگ' کے دوران سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے تھے۔
مصر میں احتجاجی مظاہروں پر پابندی کے باعث اس مظاہرے کو بھی منتشر کر دیا گیا تھا جس کے بعد ملک بھر میں فلسطینیوں کے حق میں احتجاجی مظاہرے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' اور 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔
فورم