جرمن میڈیا میں مصرکی الاظہر کی مسجد کے امام احمد الطیب کا ایک بیان شائع ہوا کہ سابق صدر حسنی مبارک اب بہت بوڑھے ہو چکے ہیں اور بیمار ہیں۔ انھوں نے ملک کی بہت خدمت کی ہے اور وہ رحم کے مستحق ہیں۔ لیکن اس بیان کی اشاعت کے فوراً بعد انھوں نے ایک وضاحت جاری کی کہ ان کے بیان کو مسخ کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے۔ مصریوں کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے کہ قانون کا اطلاق کس حد تک کیا جانا چاہیئے۔
مبارک کے خاندان سے پوچھ گچھ کی گئی ہے اور ان کے دونوں بیٹے جیل میں ہیں۔ لیکن قاہرہ کی امریکی یونیورسٹی میں پروفیسر سعید صادق کہتے ہیں کہ 1979ء میں انقلاب کے بعد ایران میں اور پھر ایک عشرے بعد رومانیہ میں جو کچھ ہوا تھا مصر نے اس ماڈل کو مسترد کر دیا ہے۔
’’ہم نے کوئی انقلابی ٹریبیونلز قائم نہیں کیے ہیں کیوں کہ اگر ایک بار انقلاب میں تشدد کا سلسلہ شروع ہو گیا تو پھر اسے روکنا بہت مشکل ہو گا۔ بہت لوگوں کا خون بہے گا۔ یہ چیز مصر کے لوگوں کی فطرت کے خلاف ہے۔ ہر انقلاب میں لوگوں کے کلچر کا عکس نظر آتا ہے‘‘۔
سعید صادق کہتے ہیں کہ اگرچہ مصری معاشرہ اعتدال پسند ہے، لیکن مبینہ جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ اس سال کے شروع میں سینکڑوں لوگوں کو ہلاک کیا گیا گذشتہ تیس برسوں میں قید خانوں میں بے شمار لوگوں کو اذیتیں دی گئیں اور اربوں ڈالر خرد برد کر لیے گئے۔
حشام قاسم پبلشر ہیں جنہیں مبارک کے زمانے میں بار بار گرفتار کیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ انصاف کرنا ممکن ہےخاص طور سے ایسے ٹھوس معاملات میں جیسے ملکی دولت کی چوری۔ ایسے ملک میں جہاں تقریباً نصف آبادی تقریباً دو ڈالر روزانہ کماتی ہے یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ’’اگر ہم مبارک کی حرکتوں پر غور کریں خاص طور سے کرپشن کے معاملے کو تو یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر کوئی بھی عام معافی دے سکے۔ یہ بڑے سنگین الزامات ہیں جنہیں اگر کسی جوابدہی کے بغیر چھوڑ دیا گیا تو اس سے مستقبل کے لیے کوئی اچھی روایت قائم نہیں ہوگی‘‘۔
صدر کی بیوی سوزین مبارک کو گذشتہ ہفتے سرکاری تحویل سے اس وعدے پر رہا کر دیا گیا کہ وہ لاکھوں ڈالر مالیت کی جائیداد اور دوسرے اثاثے حکومت کے حوالے کر دیں گی۔ وزیرِانصاف نے کہا ہے کہ ان کے خلاف مزید کارروائی نہیں ہو گی۔
لیکن عوام کی ناراضگی میں کمی نہیں آئی ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ مبارک اور ان کی بیوی دونوں نے پوچھ گچھ سے بچنے کے لیے بیماری کا سہارا لیا ہے۔ سرکاری عہدے داروں کے ان اشاروں کے باوجود کہ سابق صدر کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے گا حکومت نے عوام کی ناراضگی کے جواب میں کہا ہے کہ انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
بعض دوسرے لیڈروں کے خلاف بھی کارروائی جاری ہے۔ سابق وزیرِ داخلہ حبیب الا ادلے کو12 سال قید کی سزا پہلے ہی دی جا چکی ہے اور اب ہفتے کے روز ان کے خلاف دوسرا مقدمہ شروع ہوا۔ ان پر پہلا مقدمہ بد عنوانی کے الزام میں چلایا گیا تھا لیکن ان سے نفرت کی زیادہ بڑی وجہ سیکورٹی کا سسٹم ہے جس میں لوگوں کو اذیتیں دی جاتی تھیں۔
مصر میں ماضی کی زیادتیوں سے نمٹنے اور مستقبل کی راہ متعین کرنے کا عمل جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی علاقے کے دوسرے ملک مصر کے حالات پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔
حشام قاسم کے مطابق لیبیا، یمن اور شام کے لیڈروں کے لیے جہاں عوامی تحریکیں چل رہی ہیں یہ تصور کہ انہیں نہ صرف اقتدار چھوڑنا پڑے گا بلکہ انہیں اپنے دورِ حکومت کی کارروائیوں کے لیے سزا بھی مل سکتی ہے بہت پریشان کن ہے ۔’’جو کچھ ہو رہا ہے اس پر خلیج میں لرزہ طاری ہے۔ انہیں اس بات پرسخت غصہ ہے کہ مبارک اور ان کے خاندان پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔ 22 عرب ملکوں میں اس سے ایک انتہائی پریشان کن پیغام پہنچ رہا ہے کیوں کہ اس سے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے پورے علاقے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے‘‘۔
صادق اس خیال سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان مقدموں سے ان ملکوں کے لیڈروں میں آخر دم تک لڑنے کا رجحان پیدا ہوگا۔ لیکن مقدموں کے بغیر بھی، کم از کم مصر میں، لوگوں کی جدو جہد نے ان میں انصاف کا ایک احساس پیدا کر دیا ہے۔ مبارک کے خلاف قانونی مقدمے سے بھی زیادہ لوگوں میں یہ احساس مضبوط ہوا ہے کہ وہ اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے ختم ہو چکےہیں۔ ان کی عزت اور وقار خاک میں مل گیا ہے ۔ صادق کاخیال ہے کہ ان لوگوں کے لیئے جو کبھی اتنے طاقتور حکمراں تھے، یہ احساس ، سزائے موت سے زیادہ تکلیف دہ ہو گا۔