مٹ راحینہ نامی گاؤں کی ایک گلی میں ، امّ رضوان اپنے چھوٹے سے بیٹے کا ہاتھ تھامے درختوں کے نیچے سے گذر رہی ہیں۔ ان کا بیٹا قرآن شریف یاد کر رہا ہے ۔ یہ لڑکا اور اس کی والدہ جن کا چہرہ پوری طرح نقاب سے ڈھکا ہوا ہے، مصر کی بیشتر آبادی پر ، خاص طور سے قاہرہ کے جنوب کے اس گاؤں کے لوگوں پر مذہب کی گہری چھاپ کی عکاس ہیں ۔
ان پارلیمانی انتخابات میں اسلامی پارٹیوں کو لوگوں کی قدامت پسندی کی اقدار سے بہت فائدہ ہوا ہے۔ پہلے مرحلے میں مذہبی پارٹیوں کو سبقت حاصل ہو گئی ہے۔ اس سال کے شروع میں انقلاب پسندوں کی سیکولر ، لبرل اقدار کو اسلام پسندوں کی کامیابی سے سخت دھچکہ لگا ہے ۔
اب اس مرحلے میں، ایسا لگتا ہے کہ اسلام پسند پہلے سے بھی زیادہ کامیاب ہوں گے کیوں کہ مصر کے مستقبل کی تشکیل میں دیہی علاقوں کے ووٹر وں کی آواز بھی شامل ہو گی۔ یہاں سے نزدیک ہی ایک مسجد میں، امام صاحب سیاسی جھگڑے میں کسی فریق کی طرفداری کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن وہ نمازیوں کو بتاتے ہیں کہ جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ وہ کہتےہیں کہ اس طرح ایک ہی جنس کے لوگوں کے درمیان شادی، اور لوگوں کو سڑکوں پر شراب پینے کی اجازت ہو گی۔
امّ رضوان جب یہ سنتی ہیں تو وہ کہتی ہیں کہ انہیں یہ سب قبول نہیں ہے ۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ ناممکن ہے۔ مصر میں ایسا کبھی نہیں ہو گا۔
مٹ راحینہ کے ایک اور شہری سعد درویش ان سے متفق ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جمہوریت کی بھی اپنی حدود ہیں۔’’مسلمان عوام جمہوریت قبول کر سکتے ہیں لیکن وہ اسلامی جمہوریت ہونی چاہیئے ۔ یہ نہیں کہ لوگ شراب پئیں اور مسئلے پیدا کریں، اور غلط سلط حرکتیں کریں۔ آپ میری بات سمجھتی ہیں ؟ یہاں کوئی مرد کسی مرد سے، کوئی عورت کسی عورت سے شادی نہیں کر سکتی۔ ہم یہ چیزیں پسند نہیں کرتے۔‘‘
بڑے اسلامی گروپ، اخوان المسلمون کی فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے اور خاص طور سے سلفیوں کی نور پارٹی نے جو نسبتاً زیادہ قدامت پسند ہے، ان ثقافتی رجحانات سے خوب فائدہ اٹھایا ہے ۔
سعید صادق قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی میں سیاسی عمرانیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’یہ لوگ شراب کی بات اس طرح کرتے ہیں جیسے مصر میں ہر طرف شراب بہہ رہی ہے۔ اور پھر یہ بکنیز کی بات کرتےہیں۔ یہ غریب لوگ پسماندہ بستیوں میں رہتے ہیں اور یہاں کہیں عورتیں بکنیز میں نظر نہیں آتیں۔ یہ سب چیزیں یہاں موجود ہی نہیں ہیں۔‘‘
شراب اور عورتوں کی آزادی کی دلیل بے معنی معلوم ہو سکتی ہے لیکن یہ دلیل نہ صرف روایتی طور پر قدامت پسند لوگوں کے لیے ، بلکہ ووٹروں کے ایک اہم گروپ کے لیے پُر کشش ہے ۔ صادق کہتے ہیں’’اس تقریر کا مقصد مایوس، بے روزگار نوجوانوں میں تحریک پیدا کرنا ہے ۔ وہ شراب کی بات کرتے ہیں، اور عورتوں کی بات کرتے ہیں اور ظاہر ہے کہ نوجوانوں کو ان چیزوں میں بہت زیادہ دلچسپی ہوتی ہے ۔‘‘
لیکن ایسی علامتیں نظر آ رہی ہیں کہ مصر میں ان نوجوانوں اور دوسرے لوگوں کو جو مسائل درپیش ہیں وہ ان فروعات پر غالب آ جائیں گے۔ مصر میں انقلاب کا محرک صرف سیاست نہیں بلکہ اقتصادی مسائل بھی تھے ۔ امّ رضوان کہتی ہیں کہ جو بھی گروپ اقتصادی مسائل میں اضافہ کرے گا وہ ناکام ہو جائے گا، چاہے اس کی سماجی اور انسانی حقوق کی پالیسیاں کچھ ہی کیوں نہ ہو ں۔ اقتصادی محاذ پر سعد درویش ان سے متفق ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نئے متوقع آئین کے با وجود، اسلام کی زیادہ سخت توجیح آنے کی رفتار سست ہو گی ۔اگر ووٹروں سے اس بار کوئی غلطی ہوتی ہے تو اگلے انتخا ب میں جب وہ ووٹ ڈالیں گے تو وہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کر لیں گے۔
’’اگر کوئی اپنی کوشش میں کامیاب ہوتا ہے اور لوگوں کی مدد کرتا ہے، تو وہ دوبارہ منتخب ہو جائے گا۔ اگر وہ لوگوں کی مدد نہیں کریں گے، تو دوبارہ منتخب نہیں ہوں گے۔‘‘
درویش کو اپنی قدامت پسند اقدار بہت عزیز ہو سکتی ہیں، لیکن ان کے الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں جمہوریت کی طاقت پر بھی اتنا ہی یقین ہے ۔