چین نے امریکہ کے تین بڑے اخبارات سے وابستہ امریکی صحافیوں کو ملک سے بے دخل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بیجنگ نے اپنے اس اقدام کو 'جوابی کارروائی' قرار دیا ہے۔
چین نے جن اخبارات کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا ہے اُن میں نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ اور وال اسٹریٹ جرنل شامل ہیں جو امریکہ کے بڑے اخبارات میں شمار ہوتے ہیں۔
چین میں غیر ملکی نمائندگان کے ایک کلب نے بیجنگ کے فیصلے کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس فیصلے سے کم از کم 13 صحافی متاثر ہوں گے۔
دونوں ملکوں کے درمیان کرونا وائرس کے سبب پیدا ہونے والے بحران کے بعد سے میڈیا کی آزادی سے متعلق چپقلش میں بھی شدت آ گئی ہے۔
چین کے حکام نے کہا ہے کہ مذکورہ تینوں اخبارات سے وابستہ چین میں مقیم ان امریکی صحافیوں کو اپنے صحافتی اجازت نامے اور دستاویزات آئندہ 10 روز میں بیجنگ حکام کے حوالے کرنا ہوں گے جن کی دستاویزات کی میعاد رواں برس کے آخر میں ختم ہو رہی ہے۔
چین نے کہا ہے کہ بے دخلی کا سامنا کرنے والے امریکی صحافیوں کو چین کے زیرِانتظام خود مختار علاقوں ہانگ کانگ یا مکاؤ میں بھی کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔
چین اور امریکہ کے درمیان صحافتی تنازع
دونوں ملکوں کے درمیان حالیہ تنازع کا آغاز گزشتہ ماہ اس وقت ہوا تھا جب وال اسٹریٹ جرنل میں شائع ہونے والے ایک کالم پر چین نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اخبار سے وابستہ امریکہ کے دو اور آسٹریلیا کے ایک صحافی کو ملک سے بے دخل کر دیا تھا۔
امریکہ نے چین کے اس اقدام کے خلاف امریکہ میں چین کی حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والے ذرائع ابلاغ کے اداروں کے صحافیوں کی تعداد 160 سے کم کر کے 100 کر دی تھی۔
واشنگٹن نے امریکہ میں کام کرنے والے چین کے سرکاری میڈیا کو بطور سفارتی تنصیب رجسٹرڈ کرانے کا بھی حکم دیا تھا جس پر چین نے برہمی ظاہر کی تھی۔
چین نے تینوں امریکی اخبارات کے امریکی نمائندوں سے متعلق اپنے حالیہ فیصلے کو امریکی اقدامات کا ردِ عمل قرار دیا ہے۔
ٹائم اور وی او اے کو معلومات دینے کا حکم
بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں بیجنگ حکومت نے کہا ہے کہ اس نے امریکی سرزمین پر کام کرنے والے چین کے صحافیوں کی تعداد میں کمی کے جواب میں امریکہ کے تینوں بڑے اخبارات کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کی بے دخلی کا فیصلہ کیا ہے۔
چینی حکام کے مطابق امریکی جریدے 'ٹائم' میگزین اور امریکہ کے نشریاتی ادارے 'وائس آف امریکہ' کو بھی تحریری طور پرچین میں موجود اپنے ملازمین، آپریشنز اور جائیداد سے متعلق معلومات بیجنگ حکام کو فراہم کرنا ہوں گی۔
بیجنگ کا کہنا ہے کہ حالیہ اقدامات امریکہ میں چین کے صحافیوں پر عائد کردہ پابندیوں کے نتیجے میں کیے گئے ہیں۔
دوسری جانب امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ بیجنگ کا ردِعمل متوازن نہیں ہے۔ اُن کے بقول امریکہ میں موجود چین کے صحافیوں پر پروپیگنڈا کرنے کی وجہ سے پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
وائس آف امریکہ کا ردِ عمل
امریکہ کے بیرونِ ملک کام کرنے والے نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ (وی او اے) نے اپنے ایک بیان میں چین کے حالیہ فیصلے کی مذمت کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی صحافیوں کو چین میں کام کرنے سے روکنا آزاد صحافت کے لیے غلط اقدام ہے اور ادارہ چین اور دنیا بھر میں آزادی صحافت کی بالادستی کے عزم پر قائم ہے۔
وائس آف امریکہ نے واضح کیا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کا ادارہ ہے جس کی ایڈیٹوریل پالیسی میں کسی حکومت کو مداخلت کی اجازت نہیں اور نہ ہی یہ امریکی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "ہم چین کے اپنے ناظرین کے لیے معلومات کی رسائی کا قابلِ بھروسہ اور قابلِ اعتماد ذریعہ ہیں۔ ایک ہفتے کے دوران چین کے چار کروڑ سے زائد افراد وی او اے کے ذریعے غیر متعصبانہ خبریں حاصل کرتے ہیں۔"