ایک برس قبل، مصر میں اخوان المسلمون کی حمایت کے الزامات میں،’الجزیرہ‘ کے تین صحافیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ جمعرات کا دِن آئے اور وہ عدالت کے سامنے اپنی اپیل دائر کریں۔
آسٹریلیائی شہری پیٹر گریستے اور مصری نژاد کینیڈا کے شہری، محمد فہمی سات برس کی جیل کاٹ رہے ہیں، جب کہ اُن کے ایک مصری ساتھی، بحر محمد 10 برس کی قید میں ہیں۔
گریستے کے اہل خانہ نے پیر کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ اُنھیں توقع ہے کہ عدالتی اپیل کے ذریعے اِن صحافیوں کو رہائی نصیب ہو سکتی ہے۔
مائیکل گریستے کے بقول، ’عدالتی عمل کے حوالے سے پہلی جنوری ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے، اور ہم سمجھتے ہیں کہ اِس بے انصافی کے ازالے کے لیے مصری حکام کو ایک موقع میسر ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ عدالتی عمل کے حوالے سے ہمیں اب بھی برتری حاصل ہے، اور امید کرتے ہیں کہ اس پر درست زاوئے سے نظر ثانی ہوگی‘۔
پیٹر گریستے کے والد، جیورس گریستے کے الفاظ میں،’ایسے میں جب ہم یکم جنوری کے منتظر ہیں، جس بات کی ہمیں اپیلز عدالت سے توقع ہے وہ یہ اپنی آزاد روی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، پچھلے فیصلے کو مسترد کرکے، بالا تر ہونے کا ثبوت دے گی‘۔
جولائی میں اِن صحافیوں کے سزا کے فیصلے کے بعد، مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی نے کہا تھا کہ فیصلے کی حرمت کا لحاظ کرتے ہوئے، وہ اِس معاملے میں مداخلت نہیں کریں گے۔
محمد فہمی کی منگیتر، مروہ اومارہ کے بقول، ’وہ اس لیے قید ہیں کیونکہ، مصر اور الجزیرہ کی مالی معاونت کرنا والے، قطر کی آپسی ’سرد جنگ‘ جاری ہے‘۔
مروہ کے الفاظ میں، ’سب پر عیاں ہے کہ یہ ایک سیاسی مقدمہ ہے۔ محمد مصر اور قطر کے درمیان جاری سرد جنگ کی زد میں آگئے ہیں، جب کہ اُنھوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ اُنھوں نے کوئی قصور نہیں کیا۔ اُن کے خلاف کوئی شہادت نہیں۔ اُنھیں ناکردہ گناہ کی سزا مل رہی ہے‘۔
الجزیرہ کا مؤقف ہے کہ اُس کے کارکن خبروں کی رپورٹنگ کا اپنا کام انجام دے رہے تھے، اور خبر رساں ادارے نے اپنے خلاف فیصلے کو ’افسوس ناک‘ قرار دیا۔