مصر کے فوجی حکمرانوں نے مظاہرین کی جانب سے فوری مستعفی ہونے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنا عوام کے اعتماد کو "دھوکا" دینے کے مترادف ہوگا۔
عوامی احتجاج کے نتیجے میں سابق مصری صدر حسنی مبارک کی اقتدار سےرخصتی کے بعد رواں برس فروری میں حکومت سنبھالنے والی 'سپریم کونسل آف آرمڈ فورسز' کے رہنمائوں نے اس فیصلے کا اعلان جمعرات کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
کانفرنس سے خطاب میں ملٹری کونسل کے رکن میجر جنرل مختار الملاح کا کہنا تھا کہ کونسل کچھ لوگوں کے مطالبات اور کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر اقتدار سے دستبردار نہیں ہوگی۔
الملاح کا کہنا تھا کہ اگر وہ اقتدار سے دستبردار ہوگئے تو انہیں اپنے عوام کے غدار کے طور پر یاد رکھا جائے گا اور، ان کے بقول، "تاریخ میں لکھا جائے گا کہ ملٹری کونسل نے اپنے لوگوں کا ساتھ چھوڑ دیا اور انہیں دھوکہ دیا"۔
پریس کانفرنس کے دوران فوجی حکمرانوں نے رواں ہفتے مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں 35 افراد کی ہلاکت پر بھی معذرت طلب کی۔
فوجی حکمرانوں کی جانب سے یہ معذرت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حالیہ مظاہروں کے مرکز قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر مظاہرین اور سرکاری فورسز کے درمیان گزشتہ چند روز کے دوران ہونے والی شدید جھڑپوں کے بعد جمعرات کو عارضی جنگ بندی کا سماں رہا۔
چوک میں گزشتہ ہفتے سے جمع ہزاروں مظاہرین فوجی حکمرانوں سے فوری طور پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
فوجی سپریم کونسل کے سربراہ فیلڈ مارشل حسین طنطاوی کی جانب سے پرتشدد مظاہروں کے بعد سولِ حکومت کو اقتدار کی منتقلی کا عمل تیز کرنے اور صدارتی انتخابات جولائی 2012ء سے قبل کرانے کا اعلان کیے جانے کے باوجود مظاہرین نے احتجاج ختم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
فوجی کونسل کے وعدے کے مطابق مصر میں پارلیمانی انتخابات کا عمل پیر سے شروع ہونے جارہا ہے۔ فیلڈ مارشل طنطاوی نے انتخابات کے شیڈول کے مطابق انعقاد کی بھی یقین دہانی کرائی ہے۔
اس سے قبل جمعرات کی صبح قاہرہ کے مشرق میں نہرِ سوئز کے ساتھ واقع شہر اسمعٰلیہ میں پولیس اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جہاں مظاہرین نے بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں پہ سوار فوجیوں پر دیسی ساختہ بموں کے حملے کیے۔
جھڑپوں کے دوران شہر فائرنگ کی آوازوں سے بھی گونجتا رہا۔
گزشتہ شب ساحلی شہر اسکندریہ میں بھی مظاہرین نے پولیس پر پتھرائو کیا تھا اور کئی مقامات پہ رکاوٹیں کھڑی کرکے گزرگاہیں بند کردی تھیں۔ احتجاج کے دوران ہاتھوں میں ہاتھ دیے کئی مظاہرین فوجی تنصیبات کے آگے "آزادی" کے نعرے بلند کرتے بھی دکھائی دیے۔
دریں اثنا، مصری حکام ان تین امریکی طلبہ کو رہا کرنے والے ہیں جنہیں رواں ہفتے قاہرہ میں ہونے والے ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران حراست میں لے لیا گیا تھا۔
مصری ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات کے مطابق تینوں طلبہ قاہرہ کی 'امریکن یونی ورسٹی' میں زیرِ تعلیم ہیں جنہیں مصری پولیس نے اس وقت حراست میں لیا تھا جب وہ دیگر مظاہرین کے ہمراہ پولیس اہلکاروں کو پیٹرول بموں کا نشانہ بنا رہے تھے۔