مصر میں استغاثہ کے حکام نے ملک کی صحافتی یونین کے سربراہ اور دیگر دو اعلیٰ عہدیداروں پر غلط خبریں پھیلانے اور مفرور ساتھیوں کو پناہ دینے کے الزام میں مقدمہ چلانے کا حکم دیا ہے۔
حکمنامے میں یحیٰ قلاش، خالد البلشی اور جمال عبدالرحیم کے خلاف 4 جون کو قانونی کارروائی کا حکم دیا گیا ہے۔
یہ متنازع کیس یکم مئی کو حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے دو صحافیوں کی گرفتاری کے لیے قاہرہ کے پریس کلب پر چھاپے کے بعد درج کیا گیا جنہوں نے وہاں پناہ لے رکھی تھی۔
یحیٰ قلاش اور یونین نے ان گرفتاریوں کی مذمت کی تھی اور پولیس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ یونین کی 75 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اس کے دفاتر میں زبردستی داخل ہوئی۔
وزارت داخلہ نے بعد میں عمارت میں داخل ہونے کے لیے طاقت کے استعمال کے الزام سے انکار کیا تھا مگر دو نامہ نگاروں کی گرفتاری کو تسلیم کیا تھا۔
گرفتاریوں کے بعد یونین نے صدر سے معافی اور تمام زیر حراست صحافیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر یہ مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ ہڑتال کریں گے۔
گرفتاریوں کے بعد ہونے والے احتجاج میں وزیر داخلہ مجدی عبدالغفار کی برطرفی کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔
یونین کے ان تین ارکان کے خلاف ایسے وقت حکمنامہ جاری کیا گیا ہے جب ملک میں صدر عبدالفتاح السیسی کے بارے میں عوامی اختلاف رائے میں اضافہ ہو رہا ہے جن کے بارے میں ملکی و غیر ملکی انسانی حقوق کے کارکنوں اور سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ وہ آمرانہ انداز اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے یونین کے ارکان کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’یہ ملک میں کئی دہائیوں میں صحافت پر کیا گیا سب سے وحشیانہ حملہ ہے۔‘‘
ایمنسٹی کی میگڈیلینا مغربی نے یہ بھی کہا کہ یہ گرفتاریاں ’’مصر میں حکام کی آزادی اظہار رائے کے خلاف خطرناک کارروائیوں‘‘ کو ظاہر کرتی ہیں۔
ان صحافیوں کے وکیل سید ابو زید نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ان کے مؤکلوں سے اتوار کی شام کئی گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی اور بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
یکم مئی کو گرفتار کیے گئے صحافیوں نے اپریل کے وسط میں ایسا مواد شائع کیا تھا جس میں مصر کی حکومت کی طرف سے بحیرہ احمر میں موجود دو جزائر کو سعودی عرب کے حوالے کرنے کے فیصلے کے خلاف تنقید کی گئی تھی۔