تیونس میں آنے والے عوامی انقلاب کے اثرات دیگر عرب ممالک پر بھی پڑنے لگے ہیں اور اس سلسلے کا تازہ نشانہ مصر بنا ہے جہاں منگل کے روز سینکڑوں افراد نے حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لیا۔
منگل کے روز کے مظاہروں کا مرکز دارالحکومت قاہرہ تھا جہاں سینکڑوں افراد نے حکومت کی جانب سے گرفتاریوں کی دھمکی کے باوجود حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین صدر حسنی مبارک کے استعفیٰ اور ملک میں معاشی اور سیاسی اصلاحات متعارف کرانے کا مطالبہ کررہے تھے۔
مظاہروں کے موقع پر شہر بھر میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت اقدامات کیے گئے تھے تاہم کسی بڑے ناخوشگوار واقعے کی اطلاع نہیں ملی ہے۔ مصر میں ماضی میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں پر پولیس اور دیگر سیکیورٹی حکام کی جانب سے تشدد کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں۔
مصر کی آٹھ کروڑ سے زائد آبادی کا تقریباً نصف حصہ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہا ہے جبکہ بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات کی عدم فراہمی اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری کے باعث اکثر مصری باشندے تشویش کا شکار ہیں ااور معاشرے میں بے چینی پھیل رہی ہے۔
منگل کو ہونے والے مظاہروں کا اعلان حزبِ مخالف کی جماعتوں کے اتحاد ’کفایہ موومنٹ‘ اور مصری نوجوانوں کی مقامی تنظیموں کی جانب سے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس’فیس بک‘ اور ’ٹوئٹر‘ پر کیا گیا تھا۔
ان ویب سائٹ پہ رجسٹرڈ لاکھوں مصری شہریوں نے قاہرہ اور ملک کے دیگر شہروں میں ہونے والے ان حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کا عندیہ دیا تھا۔ تاہم حکومت کی جانب سے سخت سیکیورٹی اقدامات، کریک ڈاؤن اور مظاہرین کے ساتھ سختی سے نبٹنے کی دھمکیوں کے بعد ان مظاہروں کے شرکاء کی تعداد نسبتاً کم رہی۔
مظاہروں کا اہتمام کرنے والی تنظیموں کا اپنے آن لائن پیغامات میں کہنا تھا کہ مصری نوجوان بھی تیونس کے عوامی انقلاب کو جنم دینے والے عوامل، بشمول غربت اور حکومتی جبر، کا شکار ہیں اور ان کی جانب سے یہ مظاہرے ان نوجوانوں کے غصے کا اظہار کرنے کےلیے منعقد کیے جارہے ہیں۔
حزبِ مخالف کی بڑی جماعتوں، بشمول لبرل ’وفد‘ پارٹی اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مصر کی سب سے بڑی اور منظم جماعت ’اخوان المسلمین‘ کی جانب سے ان مظاہروں کی حمایت کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا ۔ تاہم ان جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان کے کئی رہنما اور ارکان ان مظاہروں میں شریک ہونگے۔
مصر میں 1981ءسےنافذ ایمرجنسی قوانین کے تحت ملک میں پیشگی اجازت کے بغیر مظاہروں پر پابندی عائد ہے۔ تاہم حکومت مخالف گروپوں کا کہنا ہے کہ انہیں حکام کی جانب سے اس مقصد کےلیے اجازت نامے نہیں دیے گئے۔
منگل کو ہونے والے مظاہروں کا انعقاد ایک ایسے دن کیا گیا ہے جب مصر بھر میں پولیس کی خدمات کے اعتراف کا دن سرکاری سطح پر منایا جارہا ہے۔ مصری پولیس کو ملک میں گزشتہ 30 برسوں سے برسرِ اقتدار صدر حسنی مبارک کے اقتدار کا اہم ستون تصور کیا جاتا ہے۔
مصر میں ہونے والے حالیہ مظاہرے عرب دنیا کے ایک اور ملک تیونس میں آنے والے عوامی انقلاب کے پسِ منظر میں کیے جارہے ہیں جہاں چلنے والی عوامی تحریک اور شورش کے باعث ملک پر 23 سال سے برسرِ اقتدار زین العابدین بن علی کو رواں ماہ صدارت کا عہدہ چھوڑ کر ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔