قاہرہ کے تحریر اسکوائر میں عرب موسم بہار کے ابتدائی دنوں کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔ روزانہ یہاں ہزاروں مصری جمع ہوتے اور یہ وسیع و عریض چوک ملک کی جمہوری امنگوں کے لیے شاندار اسٹیج بن جاتا۔ لیکن اب جب کہ نئے موسمِ بہار کی آمد آمدہے، یہاں سے کچھ فاصلے پر امریکی سفارت خانے میں ایک نیا ڈرامہ شروع ہونے کو ہے ۔
سفارت خانے میں کئی امریکیوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ ان پر مصر میں جمہوری تبدیلی کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔
وزیرِ اعظم کمال الغنزوری ان امریکیوں کے خلاف کیس چلانے کا دفاع کر رہے ہیں، اگرچہ یہ خطرہ موجود ہے کہ اگر ان لوگوں پر مقدمہ چلایا گیا تو امریکی امداد ختم ہو سکتی ہے۔’’ مصر قانون کی پابندی کرے گا اور اس پر عمل در آمد کرے گا۔ مصر کہ تہذیب ہزاروں سال پرانی ہے۔ لہٰذا ، چاہے امداد ملے یا نہ ملے، ہم اپنے موقف سے نہیں ہٹیں گے۔‘‘
امریکی محکمۂ خارجہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سکریٹری ارون سنائپ کہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کو مصر کے رویے پر سخت مایوسی ہوئی ہے۔ ’’مصر کی حکومت کو ان امریکیوں پر فرد جرم عائد کرنے کے فیصلے کے نتائج بھگتنے ہوں گے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے رابطے بر قرار رکھنے چاہئیں کیوں کہ ہم مصر کے عوام اور مصری حکومت کے ساتھ اپنے تعلقات کی قدر کرتے ہیں۔ یقیناً ہمارے درمیان کچھ اختلافات ہیں، اور کچھ ایسی دشواریاں بھی ہیں جن پر ہمیں قابو پانا ہے۔‘‘
مسٹر مبارک کے خلاف عوامی تحریک کے بعد، بیشتر امریکی نئے قانون سازوں کے انتخابی عمل میں مدد کے لیے قاہرہ میں موجود تھے ۔ امریکی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ انتخابات میں مدد دے رہے تھے، کسی مخصوص امیدوار یا پارٹی کی حمایت نہیں کر رہے تھے۔ لیکن مصری جج سمیع ابو زید کہتے ہیں کہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ ’’ ان کی بیشتر سرگرمیاں سیاسی تھیں اور ان کا تعلق سیاسی پارٹیوں کی تربیت، اور کسی ایک یا دوسرے امیدوار کے لیے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے سے تھا۔‘‘
وزیرِ اعظم الغنزوری نے کہا کہ غیر ملکی گروپ مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہے تھے۔ ’’وہ ایک خاص طریقے کی تربیت دے رہے تھے ، اور میں نہیں جانتا کہ اس کا مقصد کیا ہے۔ کیا اس کا مقصد فوجی حکومت کا تختہ الٹنا ہے؟ اگر ایسا ہے، تو پھر اس کے بعد کیا ہوگا؟‘‘
بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے فیلو خالد الغندی کہتے ہیں کہ مبارک حکومت کی باقیات کا مقصد یہ ہے کہ ان الزامات کے ذریعے لوگوں کی توجہ قاہرہ میں پھیلی ہوئی بے چینی سے ہٹا کر دوسری طرف مبذول کر دی جائے ۔’’انھوں نے کوشش کی ہے کہ لوگوں میں جو بے اطمینانی پھیلی ہوئی ہے اس کا الزام خارجی اثرات اور غیر ملکی عناصر کی سازشوں کے سر ڈال دیا جائے ۔ بعد میں، سازشوں کی ان کہانیوں کے لیے انہیں نام اور مقامات بھی ڈالنے پڑے۔ آسان کام یہی ہے کہ سارا الزام ان غیر سرکاری تنظیموں کے سر منڈھ دیا جائے جو مصر میں، گذشتہ سال کی عوامی شورش سے بھی پہلے سے کام کرتی رہی ہیں۔‘‘
امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ واشنگٹن اور قاہرہ کے لیے اس کیس کے مضمرات بہت وسیع ہوں گے ۔ نہ صرف فوجی امداد، بلکہ اسرائیلی فلسطینی امن مذاکرات کے لیے امریکی حمایت ، نیز شام میں تشدد ختم کرنے کی کوششیں بھی اس کیس سے متاثر ہو سکتی ہیں۔